سورة المؤمنون - آیت 12

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔“ (١٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١] انسان کی پیدائش اور مٹی کے جوہر کا مفہوم :۔ سلاَلَۃٌ بمعنی خلاصہ، نچوڑ، ست، جوہر، کسی بھی چیز سے نکالا ہوا کارآمد حصہ (مفردات القرآن) اور انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کرنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا مٹی سے بنایا گیا۔ پہلے یہ خشک مٹی تھی۔ پھر اس میں پانی ملایا گیا تو یہ گارا بن گیا۔ پھر اس کا خمیر اٹھایا گیا جس میں بدبو پیدا ہوگئی۔ پھر اسے گوندھ کر اس کا چپکدار اور لیس دار حصہ لیا گیا اور اسے خشک کرلیا گیا۔ پھر اسے حرارت پہنچائی گئی حتیٰ کہ وہ ٹن کی طرح بجنے لگا۔ جبکہ مٹی کے برتن اور ان کی مختلف شکلیں بنائیں اور آگ میں پکائی جاتی ہیں۔ اور ان میں مٹی کا صرف چپکدار اور کارآمد حصہ ہی استعمال ہوتا ہے۔ اسی مٹی سے آدم علیہ السلام کا پتلا تیار ہوا جس میں اللہ نے اپنی روح سے پھونکا تو جیتا جاگتا انسان وجود میں آگیا۔ پھر آئندہ آدم کی نسل توالد و تناسل اور نطفہ سے چلی۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے نطفہ بذات خود انسان کے جسم میں انھیں غذاؤں سے بنتا ہے جو زمین سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے نطفہ بھی بالآخر زمین ہی کا جوہر ہے۔