سورة الأنبياء - آیت 58

فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

چنانچہ اس نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور صرف ان کے بڑے بت کو چھوڑا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ (٥٨)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٢]سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام بتوں کوتوڑنا:۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم سیارہ پرست لوگ تھے۔ اور انسانی زندگی پر سیاروں کے اثرات کے انتہائی معتقد تھے۔ انھیں سیاروں مثلاً سورج، چاند، زہرہ، عطارد، مشتری، مریخ اور زحل وغیرہ کی ارواح کی ایک مخصوص شکل انہوں نے متعین کر رکھی تھی۔ اور اسی شکل کے مجسمے بنائے جاتے تھے۔ جن کی یہ لوگ پوجا کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ہوش مندی کی ابتداء میں پہلا تجربہ اپنی ذات پر کیا تھا اور دیکھا تھا کہ یہ سیارے یہ چاند اور یہ سورج کیا میری زندگی پر کچھ اثر انداز ہوتے ہیں یا نہیں۔ اور تجربہ نے انھیں یہی بتلایا تھا کہ ایسی باتیں سب انسانی توہمات ہیں۔ اسی بنا پر قلبی یقین کے ساتھ وہ اپنی قوم سے مجادلہ اور و قابلہ پر اتر آئے تھے۔ ان لوگوں کو جشن نوروز اس دن ہوتا تھا جب سورج برج حمل میں داخل ہوتا تھا اور آج کل کے حساب سے یہ دن یکم اپریل کا دن بنتا ہے اور یہ موسم بہار ہوتا ہے اور مبتدل موسم ہوتا ہے۔ جشن نوروز پر جب سب لوگ جانے لگے تو پہلے اپنے بتوں کے سامنے نذر و نیاز کی مٹھائیاں رکھیں۔ پھر بت خانہ کو جانے لگے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی اس میلہ میں شمولیت کی دعوت دی تو آپ علیہ السلام نے آسمان کی طرف نگاہ دوڑائی جیسے سیاروں کی چال دیکھ رہے ہوں اور کہہ دیا کہ میں تو بیمار ہونے والا ہوں لہٰذا مجھے ساتھ لے جاکر اپنے رنگ میں بھنگ نہ ڈالو۔ اور مجھے یہیں رہنے دو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سیاروں کی طرف نگاہ اس لئے نہیں کی تھی کہ آپ ان کے اثرات پر یقین رکھتے تھے جبکہ اس لئے دورائی تھی کہ آپ کی ستارہ پرست قوم آپ کے اس عذر کو معقول سمجھ لے۔ جب یہ سب لوگ میلہ پر چلے گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے یہی سنہری موقع تھا۔ آپ نے ایک تبر یا کلہاڑا لیا بت خانہ کا دروازہ کھولا اور انکے بتوں کو مار مار کر ان کے ٹکرے ٹکڑے کردیئے۔ البتہ بڑے بت کو چھوڑ دیا۔ اور کلہاڑا اس کے کندھے پر رکھ دیا تاکہ یہ معلوم ہو کہ یہ سب کارستانی اس بڑے بت کی ہے۔ آیت کے الفاظ ہیں ﴿ لَعَلَّہُمْ اِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ ﴾(تاکہ وہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں) الیہ کی ضمیر اس بڑے بت کی طرف بھی ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے بت کے کندھے پر کلہاڑا رکھنے سے بھی ان کا اپنا یہی مقصود تھا نیز یہ لوگ سخت مشکل کے وقت بڑے بت ہی کی طرف رجوع کرتے تھے اور الیہ کی ضمیر خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف بھی ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ مابعد کی دو آیات سے معلوم ہوتا ہے۔