سورة الأنبياء - آیت 18

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

بلکہ ہم باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتا ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے مٹ جاتا ہے اور یہ باتیں بنانے کی وجہ سے تمہارے لیے تباہی ہے۔“ (١٨)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٥]تخلیق کائنات کا مقصد:۔ بلکہ تخلیق کائنات کا اصل مقصد یہ ہے کہ یہاں میدان کار زار گرم ہو۔ حق و باطل کا معرکہ جاری رہے۔ حق باطل پر حملہ آور ہو اور اس کا کچومر نکال کر بھاگنے پر مجبور کردے۔ پھر جن لوگوں نے حق کا ساتھ دیا ہو۔ اللہ انھیں اپنے انعامات سے نوازے اور اہل باطل کو تباہ و برباد کردے۔ باطل کی شکست کیسے ؟جبکہ بسااوقات باطل ہی غالب نظرآتاہے :۔یہاں ایک اشتباہ پیدا ہوتا ہے کہ اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ باطل قوتیں ہی غالب نظر آتی ہیں اور حق دبا رہتا ہے۔ انبیاء یا بعض دوسرے مصلحین آتے ہیں حق و باطل کا معرکہ ہوتا ہے اور حق غالب آجاتا ہے لیکن تھوڑی دیر بعد پھر باطل سر نکال لیتا ہے اور حق دب جاتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حق کی راہ صرف ایک ہے اور وہ ہے اللہ کی وحدانیت اور اس کائنات پر صرف اسی کا مکمل اقتدار و اختیار۔ جبکہ باطل کی راہیں لاتعداد ہیں۔ وہ اپنے روپ کو بدلتی رہتی ہیں اور اپنے الٰہ بھی۔ حق آتا ہے تو باطل کی راہوں کو مٹا دیتا ہے پھر باطل کسی نئے روپ میں ازسر نو جنم لیتا ہے۔ کبھی الٰہ بتوں کو ٹھہرایا جاتا ہے، کبھی شمس و قمر کو، کبھی ستاروں کو، کبھی فرشتوں کو، کبھی جنوں کو، کبھی انسانوں کو، کبھی ان کے آستانوں اور مزاروں کو اور کبھی شجر و حجر وغیرہ کو۔ تو یہ سب راہیں حق کے مقابلہ میں مغلوب ہی رہی ہیں اور اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک حق کی راہ ایک ہی رہی ہے اور موجود رہی ہے۔ آج بھی موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی۔ توحید کے پرستار قیامت تک موجود رہیں گے۔ خواہ ان کی تعداد کتنی ہی تھوڑی ہو۔ جبکہ باطل کے تمام راستے ہمیشہ سے بگڑتے اور حق سے زک ہی اٹھاتے رہے ہیں۔ اور حق اکثر اوقات میں دبا رہنے کے باوجود بھی قائم اور برقرار رہتا ہے۔ گویا جن کو جو استقلال میسر ہے وہ باطل کو کبھی نصیب نہیں ہوتا۔