سورة طه - آیت 124

وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔“ (١٢٤)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٠]زندگی تنگ ہونے سے مراد؟ معیشۃ ضنکا کا یہ مطلب نہیں کہ ان پر ہمیشہ تنگ دستی غالب رہے گی۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ انھیں قناعت اور قلبی سکون کبھی میسر نہ آئے گا۔ اور اگر مالدار ہوں گے تو ہمیشہ ننانوے کے چکر میں پڑے رہیں گے۔ نہ رات کو سکون نصیب ہوگا اور نہ دن کو اور اگر تنگ دست ہیں تو اپنی تکلیفوں اور مصیبتوں پر واویلا کرتے رہیں گے اور جزع فزع میں ہی ان کی زندگی میں ہی ان کی زندگی بسر ہوجائے گی اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کافر کے پاس خواہ کتنا ہی مال و دولت ہو خیر اس میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ یہی مال و دولت چند روزہ عیش کے بعد اس کے لئے وبال جان بن جائے گا اور بعض مفسرین نے اس سے قبر کی برزخی زندگی مراد لی ہے۔ یعنی قیامت سے پہلے ہی ان پر تنگی کا ایسا دور آئے گا کہ قبر کی زمین بھی ان پر تنگ کردی جائے گی اور یہ تفسیر بعض صحابہ سے مروی ہے۔ بہرحال اس لفظ کے تحت یہ سب صورتیں داخل ہوسکتی ہیں۔