سورة طه - آیت 86

فَرَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ۚ أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِي

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” موسیٰ سخت غصے اور پریشانی کے عالم میں اپنی قوم کی طرف پلٹے اور فرمایا اے میری قوم کیا تمہارے رب نے تم سے بہت اچھا وعدہ نہیں کیا تھا ؟ کیا یہ وعدہ طویل ہوگیا تھا ؟ یا تم اپنے رب کا غضب چاہتے تھے پس تم نے میرے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے۔“ (٨٦)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٠] طور سےواپسی پرسیدناموسیٰ کےبنی اسرائیل سے تین سوال: ۔ موسیٰ علیہ السلام کتاب تورات لے کر جب واپس آئے تو سخت غضب ناک تھے۔ آپ نے آتے ہی اپنی قوم سے پے در پے تین سوال کئے۔ ایک یہ کہ اللہ نے جو تمہاری ہدایت کے لئے کتاب دینے کا وعدہ فرمایا تھا۔ تو یہ گمراہی کی راہ تم نے از خود کیوں اختیار کی؟ کیا تمہیں اللہ کی ہدایت پسند نہیں تھی؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ اللہ نے جتنی مدت بعد کتاب دینے کا وعدہ کیا تھا، کیا اس میں کچھ تاخیر ہوگئی تھی، یا اس وعدہ کو طویل مدت گزر چکی تھی اور تم انتظار کرتے کرتے تھک گئے تھے اور پھر یہ تجھے کہ پتہ نہیں کہ اللہ سے کب ہدایت آتی ہے یا آتی بھی ہے یا نہیں اس بنا پر تم نے خود ہی اپنے لئے ایک راہ تجویز کرلی اور اگر یہ دونوں درست تھیں تو پھر کیا تم ایسے شر کام کرکے اللہ کے غضب کو دعوت دینا چاہتے ہو؟ یہ گؤسالہ پرستی کا مرض ابھی تک تمہارے دلوں سے نکلا نہیں؟