سورة طه - آیت 71

قَالَ آمَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۖ فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اس کی اجازت دیتا ؟ معلوم ہوا کہ یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادوسکھایا ہے۔ اب میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تمہیں پھانسی چڑھاتا ہوں پھر تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ہم سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔“ (٧١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٠] فرعون نے ایمان لانے والے جاوگروں کو اتنی سخت دھمکی کیوں دی ؟ ایک تو فرعون اور اس کے حواری میدان میں مقابلہ میں مات کھاچکے تھے جسے لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے بچشم خود دیکھ لیا تھا۔ دوسرے یہ ستم ہوا کہ جن جادوگروں کے بل بوتے یہ مقابلہ رچایا گیا تھا وہ کوئی عذر معذرت کرنے کے بجائے خود ایمان لے آئے۔ تو اس دوہری شکست نے فرعون کو سیخ پا کردیا۔ اور لوگوں کو مزید کچھ عرصہ کے لئے الو بنائے رکھنے اور موسیٰ علیہ السلام کی دعوت سے بچائے رکھنے کے لئے یہ تدبیر سوچی کہ ان جادوگروں کو ہی غدار اور جاسوس قرار دیا جائے اور اعلان کردیا کہ فی الواقع یہ جادوگر موسیٰ کے شاگرد معلوم ہوتے ہیں اور ان دونوں کا مشن ایک ہی تھا۔ تبھی تو جادوگروں نے فورا ً گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ لہٰذا اے جادوگرو! میں تمہیں ایسی اور ایسی سزا دوں گا جسے تمہاری نسلیں بھی یاد رکھیں گی اور تمہیں موسیٰ پر ایمان لانے کا انجام خوب معلوم ہوجائے گا۔ تم ایمان لاکر یہ سمجھ رہے ہو کہ تم ہی نجات پانے والے ہو اور دوسرے لوگ جو موسیٰ پر ایمان نہیں لائے وہ ابدی عذاب میں مبتلا رہیں گے سو ابھی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کا عذاب سخت اور تادیر رہنے والا ہے۔