سورة مريم - آیت 59

فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” پھران کے بعد ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز ضائع کی اور خواہشات نفس کی پیروی کی۔ جلد ہی وہ گمراہی کے انجام کو پائیں گے۔ (٥٩)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٥] نماز کی اہمیت اور تعلق باللہ :۔ ارکان اسلام میں سے سب سے اہم رکن نماز ہے۔ جس سے ایک مسلمان کا اللہ کے ساتھ تعلق قائم رہتا ہے۔ اگر نماز چھوڑ دی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ سے انسان کا تعلق منقطع ہوگیا۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نماز جان بوجھ کر چھوڑی وہ کافر ہوگیا اور اسی لئے نماز کو باقاعدگی کے ساتھ ادا کرنے کی کتاب و سنت میں بار بار تاکید آئی ہے۔ حتیٰ کہ نماز نہ مریض کو معاف ہوسکتی ہے نہ سفر میں اور نہ میدان جنگ کے مختلف حالات میں' حالات کے مطابق شریعت نے رخصتیں تو دی ہیں مگر نماز کو کسی بھی حالت میں ترک نہیں کیا جاسکتا۔ نمازوں کے ضائع کرنے سے مراد صرف یہ نہیں کہ انہوں نے نماز چھوڑ دی تھی، بلکہ نماز کو جماعت سے ادا نہ کرنا۔ بروقت ادا نہ کرنا، سستی اور بےدلی سے ادا کرنا، بغیر سوچے سمجھے جلد جلد ٹھونگیں مار لینا وغیرہ وغیرہ سب باتیں نماز کو ضائع کرنے کے ضمن میں آتی ہیں۔ [٥٥ـ۔ الف] غیّ کا مفہوم :۔ اللہ سے تعلق منقطع ہوجانے کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنی خواہشات کا پیروکار اور غلام بن جاتا ہے اور یہی کچھ شیطان چاہتا ہے اور ایسے شخص کے لئے گمراہی کی راہیں کھلتی جاتی ہیں اور بعض لوگوں نے اس کا یوں ترجمہ کیا ہے کہ عنقریب یہ لوگ غیّ میں ڈالے جائیں گے۔ حدیث میں ہے کہ غیّ دوزخ میں ایک وادی یا نالہ ہے جس میں دوزخیوں کا لہو اور پیپ بہے گا اور اس میں زانی، شراب خور، سود خور اور ماں باپ کو ستانے والے ڈالے جائیں گے۔ گویا نمازیں ضائع کرنے والے بھی اسی وادی میں ڈالے جائیں گے۔