سورة الإسراء - آیت 13

وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور ہم نے ہر انسان کا نصیب اس کی گردن میں لٹکا دیا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کا اعمالنامہ نکالیں گے، جسے وہ اپنے سامنے کھلاپائے گا۔“ (١٣) ”

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣ ١] انسان کا اعمال نامہ اس کے وجود کے اندر ہے :۔ طائر کا لغوی معنی پرندہ ہے اور دوسرا معنی شومئی قسمت ہے۔ مگر اس سے مراد انسان کا اعمال نامہ لیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کی بدبختی یا نیک بختی کا ریکارڈ باہر کی دنیا میں نہیں بلکہ وہ خود انسان کے اندر موجود ہے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا : ﴿بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ ﴾(۱۵،۱۴:۷۵) بلکہ انسان اپنے آپ پر خود ہی دلیل ہے۔ اگرچہ (اپنی بے قصوری کے لیے بہانے پیش کرے) اور اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ہر انسان کے ساتھ دائیں اور بائیں دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں جو اس کا ایک ایک چھوٹا بڑا عمل ساتھ ساتھ لکھتے جاتے ہیں اور اس کا یہ اعمال نامہ تیار ہوتا رہتا ہے اور یہی توجیہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ اور موجودہ تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان جو کام بھی کرتا ہے یا زبان سے الفاظ نکالتا ہے تو اس کے اثرات اس کے بدن پر مترتب ہوتے ہیں اور فضا میں بھی محفوظ ہوتے جاتے ہیں۔ اور مدت مدید تک قائم رہتے ہیں۔ پھر جب قیامت کی صبح نمودار ہوگی تو انسان کی نگاہ اس قدر تیز ہوجائے گی کہ انسان یہ سب کچھ دیکھ اور پڑھ سکے گا۔ یہ خارجی شہادات اس کے اعمال نامہ کے علاوہ ہوں گی جس کا ذکر کتاب و سنت میں جابجا موجود ہے۔