سورة النحل - آیت 28

الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ ۖ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوءٍ ۚ بَلَىٰ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” جنہیں فرشتے اس حال میں فوت کرتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں، وہ تابع داری کا اظہار پیش کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم کوئی برا کام نہیں کیا کرتے تھے۔ کیوں نہیں ! یقیناً اللہ خوب جاننے والا ہے جو تم کیا کرتے تھے۔“ (٢٨) ”

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٩] عذاب قبر اور اس کی کیفیت :۔ جن فرشتوں کے آنے کا اپنے نبی سے تقاضا کرتے رہے جب وہ آجاتے ہیں تو ان کی سب شیخیاں کر کری ہوجاتی ہیں اور جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں پھر اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ اپنی نافرمانیوں اور حق کے خلاف سرگرمیوں سے یکسر انکار کردیں گے اور اپنے ہتھیار ڈال دیں گے تاکہ انھیں فرشتوں کی طرف سے امن نصیب ہو۔ جس کا جواب انھیں یہ دیا جائے گا کہ کیا اب تم جھوٹ بول کر اللہ کو فریب دینا چاہتے ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ تمہاری ایک ایک حرکت سے باخبر ہے کہ کس طرح تم نبیوں کے دشمن بنے رہے اور حق کو ٹھکراتے رہے اور اپنے کفر و شرک پر ڈٹے رہے۔ تمہاری اس سرکشی کی سزا یہ ہے کہ اب تم ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل کردیئے جاؤ۔ فرشتوں کی یہ دھمکی مجرموں کو اسی دنیا میں مل جاتی ہے یعنی موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہی ہر شخص کو اپنا انجام نظر آنے لگتا ہے بلکہ فرشتے اسے واضح طور پر بتادیتے ہیں۔ موت کی آخری ہچکی سے لے کر دوبارہ روز آخرت کو جی اٹھنے تک کے عرصہ کا نام برزخ ہے اور اسی عرصہ کو حدیث میں ''قبر اور جدث'' کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے خواہ میت فی الواقع مکمل ہو یا نہ ہو یا کسی دوسرے طریقے سے ٹھکانے لگا دی گئی ہو۔ کسی درندے نے پھاڑ کھایا ہو یا پانی میں غرق ہوگئی ہو۔ منکرین حدیث جو عذاب قبر کے منکر ہیں ان آیات میں ان کی تردید موجود ہے۔ جب روح بدن سے نکل جاتی ہے جسے موت کہا جاتا ہے تو اس وقت بھی روح نہ مرتی ہے نہ فنا ہوتی ہے بلکہ اپنی شخصیت کے ساتھ قائم رہتی ہے اور یہی روح دوبارہ حشر و نشر کے دن اپنے جسم میں داخل کی جائے گی جو اسے اس دن مہیا کیا جائے گا۔ اسی کا نام دوسری زندگی ہے اور عالم برزخ میں جو عذاب یا ثواب ہوتا ہے جس کا مذکورہ آیات میں ذکر ہے وہ صرف روح کو ہوتا ہے جیسے کہ انسان کو خواب میں بسا اوقات دکھ پہنچتا ہے اسے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی پٹائی ہو رہی ہے اور اس پٹائی کی اسے تکلیف بھی ہوتی ہے حالانکہ یہ سب واردات روح سے پیش آتی ہے اور جسم اپنے بستر پر پڑا ہوتا ہے۔ پھر جب وہ جاگتا ہے تو خواب میں پٹائی کے اثرات صرف اس کے ذہن میں ہی نہیں بلکہ بعض دفعہ جسم پر بھی پائے جاتے ہیں اور وہ خوفزدہ معلوم ہوتا ہے۔ بالکل ایسی ہی کیفیت عذاب قبر کی بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح خواب میں انسان کو راحت و مسرت کے واقعات بھی پیش آتے ہیں اور جب وہ اٹھتا ہے۔ تو وہ خود ہشاش بشاش ہوتا ہے اور سب کو اس کا چہرہ خوشی سے کھلا ہوا نظر آتا ہے۔ ثواب قبر کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ گویا عالم برزخ ایسی نیم زندگی کی کیفیت ہوتی ہے جس میں موت کے اثرات چونکہ زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ اس لیے برزخ کی اس نیم زندگی کی حالت کو موت ہی سے تعبیر کیا گیا ہے (مزید تفصیل کے لیے میری تصنیف ’’روح، عذاب قبر اور سماع موتی‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔