سورة الحجر - آیت 85

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ ۖ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی چیزوں کوٹھیک ٹھیک پیدا کیا اور یقیناً قیامت ہر صورت آنے والی ہے پس درگزر کیجیے، اچھے طریقے سے درگزر کرنا۔“ (٨٥) ”

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٦] ان قوموں پر عذاب الٰہی نازل کرکے ان کی بیخ وبن سے اکھاڑ دینے کی وجہ یہ تھی کہ ان کا طرز زندگی کسی ٹھوس حقیقت پر مبنی نہیں تھا بلکہ اوہام پرستی اور باطل پر تھا جبکہ کائنات کی ہر ایک چیز ٹھوس حقائق پر پیدا کی گئی ہے اور انہی حقائق سے یہ دلیل بھی ملتی ہے کہ یہ کائنات بے مقصد پیدا نہیں کی گئی اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ قیامت ضرور قائم ہونا چاہیے اور مجرم لوگ تو ہمیشہ روز آخرت اور اللہ کے حضور باز پرس کے تصور کے منکر رہے ہیں۔ لہٰذا ان کا انجام ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ اور اب یہ مشرکین مکہ جو اسی ڈگر پر چل رہے ہیں ان کا بھی وہی انجام ہونے والا ہے لہٰذا ان سے الجھنے کی ضرورت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی ان سے درگزر سے کام لیجئے۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ وہ مناسب وقت پر ان سے خود نمٹ لے گا۔