سورة ابراھیم - آیت 3

الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” جو لوگ دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں پسند سمجھتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہیں، یہ لوگ دور کی گمراہی میں بھٹک چکے ہیں۔“ (٣)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢] قرآن کی رو سے کافر کون کون ہیں؟ یعنی جن کی تمام تر کوششیں دنیوی مفادات اور ان کے حصول میں لگی ہوئی ہیں آخرت کی انھیں کچھ فکر نہیں۔ وہ دنیا کے لئے آخرت کی کامیابیوں اور خوشحالیوں کو تو قربان کرنے پر تیار ہیں لیکن آخرت کی فلاح و نجات حاصل کرنے کی خاطر اس دنیا کا کوئی نقصان برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ پھر ان کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ دوسروں کو بھی انھیں دنیوی مفادات کی ترغیب دے کر اللہ کی راہ کی طرف نہ آنے دیں یا راہ حق کی طرف چلنے والوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے اور انھیں اپنے ظلم اور زیادتیوں کا نشانہ بناتے ہیں یا اسی قرآن میں سے گمراہی کی راہیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے کافروں کو تباہ کن عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ [ ٣] اللہ کی راہ میں کجی کی صورتیں :۔ یہ خطاب سب کے لیے عام ہے خواہ کافر ہوں یا مسلم۔ ٹیڑھ پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دین کا حکم اپنی مرضی کے مطابق ہو اسے تو تسلیم کرلیا جائے اور جو مرضی کے مطابق نہ ہو اسے یا تو چھوڑ دیا جائے یا اس کا انکار کردیا جائے اور یا اس کی تاویل کرکے اللہ کے حکم کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھال لیا جائے اور اس ٹیڑھ کو اختیار کرنے کے عام طور پر دو ہی سبب ہوتے ہیں ایک اتباع ہوائے نفس اور دوسرے موجودہ زمانہ کے نظریات سے مرعوبیت۔ اور اس مرض کا شکار عوام سے زیادہ علمائے سوء ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر اوقات گمراہی کی اس انتہاء کو جا پہنچتے ہیں جہاں سے ان کی واپسی ناممکن ہوتی ہے۔