سورة یوسف - آیت 25

وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِن دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ ۚ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلَّا أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے اور اس عورت نے اس کی قمیص پیچھے سے پھاڑ دی اور دونوں نے اس کے خاوند کو دروازے کے پاس پایا، کہنے لگی کیا سزا ہے اس کی جس نے تیری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا۔ سوائے اس کے کہ وہ قید کیا جائے یا اسے دردناک عذاب دیا جائے۔“ (٢٥) ”

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٥] جب زلیخا نے چھیڑ چھاڑ کے ذریعہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے جذبات کو برانگیختہ کرنا چاہا تو آپ دروازے کی طرف بڑھے تاکہ دروازہ کھول کر باہر نکل جائیں اور زلیخا ان کے پیچھے دوڑی اور آپ کو پیچھے سے اپنے پاس کھینچنا چاہا۔ اس کشمکش میں زلیخا نے پیچھے سے سیدنا یوسف علیہ السلام کی قمیص کو پکڑ کر کھینچا تو قمیص پیچھے سے پھٹ گئی۔ تاہم یوسف علیہ السلام دروازہ کھولنے میں کامیاب ہوگئے اور جب دروازہ کھلا تو دفعتاً عزیز مصر دروازے پر کھڑا موجود تھا۔ جس نے بچشم خود دیکھ لیا کہ دونوں ایک بند کمرے سے باہر آرہے ہیں۔ آگے یوسف ہیں اور پیچھے زلیخا، اور یہ کچھ بدکاری کے امکان کے لیے کافی ثبوت تھا یا کم از کم ایسا شبہ ضرور پڑ سکتا تھا۔ [٢٦] زلیخا کا چلتر :۔ جب زلیخا نے اپنے خاوند کو دروازے پر کھڑا دیکھا تو یک لخت اسے ایک ترکیب سوجھی اس نے اس کارروائی کا تمام تر الزام سیدنا یوسف علیہ السلام کے سر تھوپ دیا۔ پھر صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ کہہ کر آپ کو سزا دلوانے کی بھی کوشش کی کہ اسی نے مجھ سے برائی کا ارارہ کیا تھا۔ اس طرح کے چلتر سے اس نے ایک تیر سے دو شکار کئے۔ ایک تو اپنے آپ کو پاکدامن ثابت کرنے کی کوشش کی، حالانکہ وہ خود ہی برائی کی اصل جڑ تھی اور دوسرے جو سیدنا یوسف علیہ السلام نے اس کی خواہش کو ٹھکرا دیا تھا اور اس نے اسے اپنی توہین سمجھا تھا۔ اس کے عوض آپ کو اپنے خاوند سے سزا دلوانا چاہی اور اپنے جرم پر پردہ ڈالنے اور اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے یوسف علیہ السلام کے لیے شدید سزا یا قید کا مطالبہ کردیا۔