سورة ھود - آیت 82

فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” پھر جب ہمارا حکم آیا تو ہم نے اس کے اوپر والے حصے کو اس کے نیچے کردیا اور ان پر پے در پے نوک دار پتھر برسائے۔“ (٨٢) ”

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٣] کیا قوم لوط پر عذاب آتش فشانی انفجار تھا ؟ یہ وہ عذاب الٰہی کا حکم تھا جس پر فرشتوں کو مامور کیا گیا تھا۔ جبر یل علیہ السلام نے شہر سدوم اور آس پاس کی بستیوں کو، جو ان بدکاروں کا مسکن تھا اس پورے خطہ زمین کو اکھاڑ کر اپنے پروں پر اٹھایا پھر فضا میں بلندی پر لے جا کر اس خطہ کو الٹا کر زمین پر پٹخ دیا۔ پھر اس خطہ زمین پر اوپر سے لگاتار کھل کر پتھر برسائے گئے اور پتھر بھی عام پتھر نہ تھے بلکہ مخصوص علامت والے پتھر تھے اور یہ دوہرا عذاب انھیں غضب الٰہی کی شدت کی بنا پر دیا گیا۔ بعض لوگ اس عذاب الٰہی کی یہ عقلی توجیہ پیش کرتے ہیں کہ یہ آتش فشانی انفجار تھا۔ زمین سے شدید قوت کے ساتھ لاوا پھوٹا جس نے اس خطہ زمین کو اوپر اٹھا لیا جو بعد میں نیچے گرگیا ۔ پھر اسی لاوا کا مائع مادہ فضا میں پہنچ کر منجمد ہو کر کھنگروں کی صورت میں اس خطہ زمین پر برسا تھا۔ یہ توجیہ ویسے تو دل لگتی ہے۔ مگر ہمیں اس توجیہ کو قبول کرنے میں تامل ہے یہ محض ایک طبعی واقعہ نہیں تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے خاص اسی مقصد کے لیے بھیجے تھے جس کی صراحت ان آیات میں موجود ہے البتہ دوسری قوموں پر جو عذاب آتے رہے انھیں طبعی اسباب کے تحت قرار دیاجا سکتا ہے اگرچہ وہ واقعات بھی اللہ کے حکم اور اس کی مشیئت کے تحت ہی واقع ہوئے تھے۔