سورة یونس - آیت 21

وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِي آيَاتِنَا ۚ قُلِ اللَّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا ۚ إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور جب ہم کسی تکلیف کے بعد لوگوں کو کوئی رحمت چکھاتے ہیں، جو انھیں پہنچی ہو، تو اچانک ہماری نشانیوں کے بارے میں کوئی نہ کوئی چال چلتے ہیں۔ فرما دیں کہ اللہ بہت جلد تدبیر کرنے والا ہے۔ بے شک ہمارے فرشتے جو چال تم چلتے ہو، لکھتے جاتے ہیں۔“ (٢١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٣] اس آیت میں اسی قحط کی طرف اشارہ ہے جس کا اسی سورۃ کی آیت نمبر ١١ میں ذکر آیا ہے۔ یہ قحط مکہ پر مسلسل سات سال تک مسلط رہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے یہ مصیبت دور ہوئی اب سوال یہ ہے کہ اس قحط میں اور اس کے دور ہونے میں تمہارے لیے کوئی نشانی نہیں کہ تم اب کسی اور معجزہ کا مطالبہ کرنے لگے ہو اس قحط کے دوران تم نے دیکھ لیا کہ باوجود تمہاری فریادوں کے تمہارے معبود تمہاری اس مصیبت کو تم سے دور نہ کرسکے پھر جب اللہ نے تمہاری مصیبت دور کردی تو پھر تم اپنے وعدوں سے فرار کی راہ سوچنے لگے اور ایسے مکر اور بہانے بنانے شروع کردیے جس سے انہیں اپنے قدیم شرک پر جمے رہنے کے لیے تائید حاصل ہو اور توحید کے اقرار سے بچ سکو جو کچھ بھی چالیں تم چل رہے ہو اس کا وبال تمہیں پر پڑے گا اور تمہاری ان سب چالوں کا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے۔