سورة یونس - آیت 20

وَيَقُولُونَ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۖ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور وہ کہتے ہیں اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی ؟ سو فرما دیں غیب تو صرف اللہ کے پاس ہے، پس انتظار کرو، بے شک میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں سے ہوں۔“ (٢٠)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٢] کفار مکہ کا حسی معجزہ کا مطالبہ :۔ معجزہ سے مراد ایسا حسی معجزہ ہے جس کا کفار مطالبہ کر رہے تھے۔ مثلاً یہ کہ فلاں پہاڑ سونے کا بن جائے یا اس سرزمین سے کوئی چشمہ پھوٹ نکلے یا ہمارے گزرے ہوئے آباؤ اجداد زندہ ہو کر ہمارے سامنے آکر ہمیں حقیقت حال سے مطلع کریں وغیرہ وغیرہ۔ ان کا مطالبہ کچھ اس لیے نہ تھا کہ جونہی وہ معجزہ دیکھ لیں گے تو فوراً ایمان لے آئیں گے بلکہ یہ محض ایمان نہ لانے کا بہانہ تھا ورنہ وہ کئی معجزات ایسے دیکھ چکے تھے جو ایمان لانے کے لیے بہت کافی تھے مثلاً ان میں سرفہرست قرآن بذات خود ایک ایسا معجزہ تھا۔ ان کافروں کے مطالبہ معجزہ کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہیے کہ جو نشانیاں آچکیں وہ تم نے بھی دیکھ لی ہیں اور میں نے بھی۔ اور جو ابھی آنے والی ہیں ان کا مجھے بھی کچھ علم نہیں۔ کیونکہ میں غیب کی باتیں نہیں جانتا لہٰذا تم بھی ایسی آنے والی نشانی کا انتظار کرو اور میں بھی کرتا ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اپنی کئی نشانیاں دکھلا دیں۔ مثلاً ان کی خواہشات اور پیہم رکاوٹوں کے علی الرغم اسلام کا بول بالا ہوا، مسلمانوں کو اکثر جنگوں میں تائید الٰہی میسر آتی رہی اور کافر ہر میدان میں پٹتے اور ذلیل و خوار ہوتے رہے تاآں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک جزیرہ عرب سے کفر و شرک کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا۔