سورة یونس - آیت 19

وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور نہیں تھے لوگ مگر ایک امت پھر انہوں نے اختلاف کیا اور اگر وہ بات نہ ہوتی جو تیرے رب کی طرف سے پہلے ہی طے ہوچکی ہے۔ تو ان کے درمیان اس بات کے بارے میں ضرور فیصلہ کردیا جاتا جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔“ (١٩) ”

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٠] یعنی سیدنا آدم علیہ السلام کے بعد کافی مدت لوگ ایک ہی دین پر رہے پھر اختلاف کرکے فرقے بن گئے ان میں سے کچھ لوگ تو سیاروں کے انسانی زندگی پر اثرات تسلیم کرنے کے بعد ان کے پجاری بن گئے اور کچھ لوگوں نے اپنے بزرگوں کے مجسمے بنائے اور ان کی عبادت کرنے لگے اور توحید کی سیدھی راہ کو چھوڑ کر شرک کی راہوں پر جا پڑے۔ [٣١] پہلے سے طے شدہ کلمہ کیا ہے ؟ وہ طے شدہ بات یہ تھی کہ چونکہ یہ دنیا دارالعمل اور دارالامتحان ہے اس لیے کسی کو بھی اس کے جرم کی پاداش میں فوری طور پر سزا نہیں دی جائے گی اگر یہ بات پہلے سے مشیت الٰہی میں نہ ہوتی تو جب کچھ لوگ کوئی نیا فرقہ بناتے تو اللہ کا عذاب انہیں فوراً تباہ و برباد کردیتا اور اس طرح یہ دنیا کب کی ختم ہوچکی ہوتی اور اگر کچھ لوگ بچ جاتے اور وہ ایمان لے بھی آتے تو ایسے جبری ایمان کا کچھ فائدہ بھی نہ تھا۔