سورة التوبہ - آیت 101

وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور تمھارے ارد گرد کے جو دیہاتی ہیں ان میں کچھ منافق ہیں اور کچھ اہل مدینہ میں سے بھی جو نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انھیں نہیں جانتے، ہم انھیں جانتے ہیں۔ عنقریب ہم انھیں دو بار عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔“ (١٠١) ”

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١٤] مدینہ کے چالاک منافقین :۔ یعنی وہ اس قدر ہوشیار اور چالاک ہیں اور ان کا نفاق اتنا گہرا اور پراسرار ہے کہ وہ اپنی منافقت کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تاہم اپنی منافقت پر پوری مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں۔ عام مسلمان انہیں پکے مسلمان ہی سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنی پیغمبرانہ فراست کے باوجود انہیں نہیں جانتے۔ ان کے نفاق کو بس اللہ ہی جانتا ہے جو دلوں کے ارادوں اور رازوں تک سے واقف ہے۔ [١١٥] منافقوں کو دو سزائیں :۔ دو مرتبہ عذاب سے مراد اگر جنس عذاب لیا جائے تو ایک دنیا کا عذاب ہوگا۔ دوسرا عالم برزخ کا اور یہ دونوں قیامت کے بڑے عذاب سے پہلے انہیں بھگتنا ہوں گے اور اگر دنیا کے عذاب ہی مراد لیے جائیں تو ایک عذاب تو ان کی اپنی اولادوں اور تمام مومنوں کے سامنے ذلت و رسوائی ہے جو ان کے نفاق کی چالوں سے پردہ فاش ہوجانے کی صورت میں انہیں برداشت کرنا پڑتی ہے۔ دوسرے وہ ذہنی اور روحانی کوفت ہے کہ اسلام کی ترقی کے ساتھ ساتھ دم بدم بڑھتی ہی جا رہی ہے۔