سورة التوبہ - آیت 61

وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ۚ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ ۚ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو نبی کوتکلیف دیتے ہیں اور کہتے ہیں وہ تو کان کا کچا ہے۔ فرما دیں وہ تمہارے لیے خیر کا کان ہے اللہ پر اور مومنوں کی بات کا یقین کرتا ہے اور ایمان والوں کے لیے رحمت ہے اور جو لوگ اللہ کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔“ (٦١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٤] منافقوں کا آپ کو لائی لگ کہنا اور اس کا جواب :۔ منافقوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ شکایت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر شخص کی بات سن لیتے ہیں اور پھر اسے درست بھی سمجھ لیتے ہیں۔ دراصل ان کی خواہش یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مسلمانوں کی باتوں پر اعتماد نہ کیا کریں جو ہم جیسے معزز لوگوں کی خبریں یعنی ہماری سازشوں اور شرارتوں کے حالات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کرتے رہتے ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نبی کا ایسا ہونا دراصل تمہارے ہی حق میں بہتر ہے۔ تم ان کے سامنے اپنے ایمان کے جھوٹے دعوے کرتے، مسلمانوں کے ہمدرد ہونے پر جھوٹی قسمیں کھاتے اور جہاد سے فرار کے لیے جھوٹے بہانے بناتے ہو۔ مگر وہ صبر سے کام لیتا ہے۔ اگر وہ اسی وقت ہر بات کی تحقیق شروع کردیتا تو سب سے پہلے تمہاری ہی شامت آ جاتی۔ [٧٥] متقی کی بات قابل اعتبار ہے :۔ یعنی رسول سنتا تو سب کی ہے مگر اعتماد صرف ان لوگوں پر کرتا ہے جو سچے مومن ہیں اور اللہ سے ڈرنے والے اور جھوٹ اور چغل خوری سے پرہیز کرنے والے ہیں۔ لہٰذا اگر وہ تمہاری شرارتوں اور معاندانہ سرگرمیوں کی اطلاع دیتے ہیں تو وہ فی الواقع قابل اعتماد ہوتی ہیں۔