سورة الزمر - آیت 9

أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کیا اس شخص کی روش بہتر ہے یا اس شخص کی جو مطیع فرمان ہے اور رات کو اپنے رب کے حضور کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت پرامید لگائے ہوئے ہے ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہو سکتے ہیں، نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٨)، جوجانتے ہیں، یعنی اللہ و رسول کی بتائی ہوئی باتوں کو مانتے ہیں اور جو نہیں مانتے یہ دونوں کب برابر ہوسکتے ہیں؟۔ ” یادرہے کہ یہ ایک نہایت اہم اور بصیرت طلب آیت کریمہ ہے ایک ایسے قانت ومنقطع شخص کی مثال دے کر فرمایا، ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون۔ غور کیجئے کہ بہ ظاہر اسے علم وجہل سے کیا تعلق تھا؟ اصل یہ ہے کہ جو حالت زار شخص (قانت ومنقطع) کی بیان کی گئی ہے وہی فی الحقیقت علم وحکمت حقیقۃ کا انتہائی مرتبہ ہے اور وہی حالت ہے جسے علم کا اصلی نتیجہ یقین کرنا چاہیے“۔