سورة الروم - آیت 4

فِي بِضْعِ سِنِينَ ۗ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اللہ کا ہی اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی اور اس دن اللہ کی دی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی عہد کی وسطی تنزیلات سے ہے اور اس میں بھی موضوع سخن رسالت ونبوت، معاد اور توحید ہیں تاہم اسلوب بیان مختلف ہے۔ سورۃ کی ابتداء میں ہی دوایسی پیش گوئیاں مذکور ہیں جو تاریخی طور پر قرآن مجید کی صداقت اور اس کے وحی الٰہی ہونے کی دلیل ہیں لہذا ان تاریخی واقعات کا جائزہ ضروری ہے جوان آیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ قیصر روم ماریش شاہ ایران خسروپرویز کا محسن تھا جب اس کے خلاف بغاوت ہوئی اور فوکس نامی شخص نے روما پر قبضہ کرلیا تو شاہ ایران نے اپنے محسن کا انتقام لینے کے لیے روم پر حملہ کردیا اس حملہ کا آغاز ٦٠٣ ء میں ہوا، چند سال کے اندر اس نے معتد بہ علاقے فتح کرلیے، روم کے اعیان سلطنت نے جب دیکھا کہ فوکس ملک کو نہیں بچاسکتا تو وہ افریقہ کے گورنر سے مدد کے طالب ہوئے اور اس نے اپنے بیٹے ہر قل کو ایک طاقتور بیڑے کے ستھ قسطنطنیہ بھیج دیا اور فوکس کو معزول کرکے خود قیصر بن گیا، یہ واقعہ ٦١٠ ء کا ہے اور یہ وہی سال ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی طرف سے منصب نبوت پرسرفراز ہوئے اب اس جنگ نے مجوسیت اور مسیحیت کی جنگ کارنگ اختیار کرلیا اور یہودیوں نے بھی عیسائیت کو نیست ونابود کرنے کے لیے مجوسیوں کا ساتھ دیا، حتی کہ چھبیس ہزار یہودیوں نے خسروپرویز کی فوج میں بھرتی دی، اور مجوسیوں نے پیش قدمی کرکے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا، عیسائیوں کا قتل ہوا، اور ان کاسب سے بڑا کلیسا (کنیسہ القیامہ) برباد کردیا گیا اور پھر آگے بڑھ کر جزیرہ نمائے سینا کے پورے علاقہ پر قابض ہو کر حدود ومصر تک پہنچ گئے۔ یہ وہ دور تھا جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفار قریش کے درمیان معرکہ آرائی جاری تھی اور ٦١٥ ء میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہجرت کرکے حبش کی عیسائی سلنطت میں پناہ گزین تھی (جوروم کی حلیف تھی) مشرکین مکہ خوش تھے کہ ایران کے آتش پرست غالب ہورہے ہیں اور مذہب پرست عیسائی مغلوب ہورہے ہیں۔ ان حالات میں یہ سورۃ نازل ہوئی جس میں رومیوں کے غالب ہونے کی پیش گوئی کی گئی کہ یہ چند سال کے اندر پوری ہوگی حالانکہ اس وقت کے حالات کے پیش نظر کوئی شخص گمان تک نہ کرسکتا تھا کہ رومی غالب آسکتے ہیں اور اسی روز مسلمان بھی اللہ کی دی ہوئی فتح سے خوشی ہوں گے۔ چنانچہ ٩ سال کے اندر یہ پیش گوئی اس دن پوری ہوئی جبکہ ٦٢٤ ء میں مسلمانوں نے معرکہ بدر سرکیا، اسی روز رومیوں نے بھی اپنے تمام علاقے واگزار کرالیے تھے اور اب ایران کی سرزمین میدان جنگ بن چکی تھی اور ہر قل نے آذربائیجان میں گھس کر زرتشت کے مقام پیدائش کو تباہ کردیا جوایرانیوں کاسب سے بڑا آتش کدہ تھا اس کے بعد رومی فوجیں مسلسل آگے بڑھتی چلی گئیں اور ٦٢٧ ء کونینوی کی جنگ نے توایران کی کمر توڑ دی۔ اس کے بعد شاہان ایران کی قیام گاہ دستگرد کو تباہ کردیا اور رومی ایران کے دارالسلطنت طیفوس تک پہنچ گئے، حتی کہ ٦٢٨ ء میں خسرو پرویز کے قتل کے بعد اس کے بیٹے قباد ثانی نے ہر قل سے صلح کی اور یہی وہ سال ہے جس میں صلح حدیبیہ ہوئی، جس کو قرآن مجید نے فتح عظیم قرار دیا ہے۔ ویومئذ یفرح المومنون۔ وللہ الحمد۔ سورۃ کے خاتمہ میں وحی کی برکات اور ضرورت کی طرف اشارہ کیا ہے اور تمثیل کے پیرایہ میں سمجھایا ہے کہ جس طرح بارش سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اسی طرح وحی ونبوت سے مردہ انسانیت کو زندگی حاصل ہوجاتی ہے گویا یہ بھی باران رحمت ہے جس کانزول انسانی زندگی کے لیے موجب خیروبرکت ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ گے تو خیروفلاح حاصل کرلوگے ورنہ اپنانقصان کرو گے اور تلافی کا کوئی موقع نہیں مل سکے گا۔