سورة القصص - آیت 2

تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یہ کتاب مبین کی آیات ہیں۔ (٢)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تفسیر وتشریح۔ (١) اس سورت کا تعلق بھی مکی عہد کی وسطی تنزیلات سے ہے حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ سورۃ الشعراء اور سورۃ نمل اور سورۃ قصص یکے بعد دیگرے نازل ہوئی ہیں مضامین سے بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ ان تینوں کا زمانہ نزول قریب قریب ہی ہے ان تینوں سورتوں میں حضرت موسیٰ کا قصہ مذکور ہے پہلی دونوں سورتوں میں قصہ کے کچھ اجزاء قدرے اجمال سے مذکور ہیں اس سورت میں تفصیل کے ساتھ آگئے ہیں اس سورۃ کا مضوع بھی ان شبہات کو رفع کرنا ہے جونبی کی رسالت پر کیے جارہے تھے حضرت موسیٰ کا قصہ آنحضرت کے حالات زندگی سے ملتا جلتا ہے اس لیے اس قصہ کو پہلے رکھا گیا ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب ایک امی نبی دوہزار سال قبل کا ایک تاریخی سچا واقعہ اس تفصیل سے من وعن بیان کررہے ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ وحی کی معلومات ہیں ورنہ سب جانتے تھے کہ آپ کے لیے ان معلومات کے حاصل کرنے کا بظاہر کوئی ذریعہ نہ تھا۔ ان کے باربار کے اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ یہ نبی وہ معجزے کیوں نہیں لایا جو اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) لائے تھے اور کفار مکہ کو شرم دلائی کہ کچھ عیسائی مکہ میں آئے اور آنحضرت سے قرآن سن کر ایمان لے آئے مگر مکہ کے باشندے اس نعمت سے مستفید نہیں ہوتے۔ پھر سورۃ کے آخر میں کفار قریش کی نبی کے ساتھ دشمنی کے اصل محرک پر تفصیل سے گفتگو کی ہے کہ اگر ہم اہل عرب کے دین شرک کو چھوڑ کر اس نئے دین کو قبول کرلیں تو اس ملک سے ہماری مذہبی، معاشرتی اور معاشی سیادت ختم ہوجائے گی اور ہمارے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہوگی۔