سورة ھود - آیت 24

مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالْأَعْمَىٰ وَالْأَصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ ۚ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

دونوں گروہوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی اندھا اور بہرا ہو اور دوسرا دیکھنے والا اور سننے والا کیا یہ دونوں مثال میں برابر ہیں ؟ تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟“ (٢٤)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٢٤) کو تمام پچھلی موعظت کا خلاصہ سمجھو۔ فرمایا دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا بہرا ہو، دوسرا دیکھنے سننے والا، پھر کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ کیا روشنی اور اندھیاری میں کوئی فرق نہیں؟ کیا بصارت اور کوری کا ایک حکم ہے؟ چنانچہ اس کے بعد ہی گزشتہ ایام و وقائع کا بیان شروع ہوگیا ہے جو فی الحقیقت دلائل و حجج کا ایک پورا سلسلہ ہے، اس سلسلہ کی پہلی کڑی حضرت نوح کی دعوت ہے۔ حضرت نوح نے کہا : (ا) اللہ کے سوا وار کسی کی بندگی نہ کرو۔ (ب) اگر تم سرکشی سے باز نہ آئے تو عذاب کا ایک بڑا ہی دردناک دن آنے والا ہے۔ (ج) لیکن قوم کے سرداروں اور اونچے درجہ کی جماعتوں نے انکار و سرکشی کی۔ صرف وہ لوگ ایمان لائے جو قوم میں ذلیل سمجھے جاتے تھے۔ (د) منکروں نے کہا تم بھی ہماری ہی طرح ایک آدمی ہو پھر تمہاری بات کیوں مانیں یعنی اگر تم میں کوئی ایسا اچنبھا پایا جاتا جو اور آدمیوں میں نہیں پایا جاتا، یا دیوتاؤں کی طرح اتر آئے ہوتے تو تمہاری تصدیق کرتے۔ (ہ) منکرین نے کہا جو ہم میں کمینے ہیں وہی بے سمجھے بوجھے تمہیں مان رہے ہیں۔ پھر کیا ان بے وقوفوں کی طرح ہم بھی مان لیں۔ علاوہ بریں ہم ایسی جماعت میں کیونکر شریک ہوسکتے ہیں جہاں رذیل و شریف میں کوئی امتیاز نہیں؟ (و) حضرت نوح نے کہا۔ انسان کی ہدایت تو انسان ہی کے ذڑیعہ سے ہوسکتی ہے اور وہ اتنا ہی کرسکتا ہے جو اس کے اختیار میں ہے، تم کہتے ہو میں جھوٹا ہوں لیکن بتلاؤ اگر تم مجھے سچا سمجھتے تو کیا اس بات کی توقع کرتے کہ جبرا تمہیں سچائی کی راہ دکھا دوں؟ خدا کی طرف سے کتنے ہی واضح دلیل حق مجھے مل گئی ہو لیکن تم سمجھھے سے انکار کردو تو میں کیا کرسکتا ہوں؟ (ز) انہوں نے کہا تم جن لوگوں کو ذلیل سمجھتے ہو میں کبھی نہیں کہوں گا کہ وہ ذلیل ہیں اور انہیں خوبی و سعادت نہیں مل سکتی۔ اگر میں ایسا کروں تو خدا کے مواخذہ میں گرفتار ہوجاؤں۔ (ح) انہوں نے کہا، میرا دعوی صرف یہ ہے کہ سچائی کا پیغام بر ہوں، مجھے طاقت و تصرف کا دعوی نہیں نہ میں انسانیت سے کوئی بالاتر ہستی ہوں۔ (ط) منکروں نے ان دلائل و مواعظ پر غور کرنے سے انکار کردیا وہ ان باتوں کو جدال سے تعبیر کرنے لگے اور یہاں تک سرکشی کی کہ خود عذاب کے ظہور میں مطالبہ کرنے لگے۔ (ی) اس پر ارشاد الہی ہوا کہ کہہ دے تم کہتے ہو کہ میں مفتری ہوں۔ اچھا اگر میں مفتری ہوں تو میرا گناہ مجھ پر اور اگر تم سچائی کو جھٹلا رہے ہو تو اس کی پاداش میں تمہیں جھیلنی ہے، میں اس سے بری ہوں، اب فیصلہ کا انتظار کرو۔ (ک) حضرت نوح کا وحی الہی سے مطلع ہونا کہ جو ایمان لاچکے ہیں ان کے سوا کوئی ایمان لانے والا نہیں اور یہ کہ ملک غرق ہونے والا ہے پس ایک کشتنی بنا لو۔ (ل) منکروں کا اس پر تمسخر کرنا۔ (ن) طوفان کا ظہور اور حضرت نوح کا کشتی میں سوار ہونا اور ان سب کو ساتھ لے لینا جن کے ساتھ لینے کا حکم ہوا۔ (س) سیلاب نے اتنا گہرا پانی جمع کردیا تھا اور طوفانی ہواؤں کا یہ عالم تھا کہ اونچی اونچی موجیں اٹھنے لگی تھیَ (ع) حضرت نوح کے لڑکے نے ان کا ساتھ نہ دیا اور غرق ہوگیا۔ حضرت نوح نے کہا خدایا ! وہ میرے اہل و عیال میں سے ہے، فرمایا نہیں وہ بدعمل ہے اور بدعمل تیرے اہل میں داخل نہیں۔ یہ آیت اس باب میں قطعی ہے کہ جسمانی رشتہ نجات کے لیے کچھ سود مند نہیں، جو کچھ ہے ایمان و عمل ہے۔ حضرت نوح کو اپنے لڑکے کے کفر کی خبر نہ تھی اس لیے عرض کیا کہ وہ میرے اہل میں سے ہے اور میرے اہل و عیال کی حفاظت کا تو نے وعدہ کیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ حقیقت حال دوسری ہے اور تمہیں اس کی خبر نہیں۔ وہ تو ان میں سے ہے جن کے لیے کہا جاچکا ہے کہ (لا تخاطبنی فی الذین ظلموان) اور (الا من سبق علیہ القول) جیسا کہ آیت (٣٧) اور (٤٠) میں گزر چکا۔ (ف) طوفان اور سیلاب کا تھمنا، حادثہ کا ختم ہونا اور کشتی کا جودی پہاڑ پر قرار پانا۔ سورۃ قمر کی آیت (١١) سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے لگاتار بارش ہوئی تھی اور زمین کی تمام نہروں میں سیلاب آگیا تھا، تورات میں بھی ایسا ہی ہے، لیکن اس میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ بڑے سمندر کی تمام سوتیں پھوٹ نکلی تھیں۔ (پیدائش : ١٢: ٧) حضرت نوح کا ظہور اس سرزمین میں ہوا تھا جو دجلہ اور فرات کی وادیوں میں واقع ہے۔ دجلہ اور فرات آرمینیا کے پہاڑوں سے نکلے ہیں، اور بہت دور الگ الگ بہہ کر عراق زیریں میں باہم مل گئے ہیں اور پھر خلیج فارس میں سمندر سے ہم کنار ہوئے ہیں۔ آرمینیا کے یہ پہاڑ ارارات کے علاقہ میں واقع ہیں۔ اسی لیے انہیں تورات میں ارارات کا پہاڑ کہا ہے۔ لیکن قرآن نے خاص اس پہاڑ کا ذکر کیا جس پر کشتی ٹھہری تھی، وہ جودی تھی۔ زمانہ حال کے بعض شارحین تورات کے خیال میں جودی اس سلسلہ کوہ کا نام ہے جس نے ارارات اور جارجیا کے سلسلہ ہائے کوہ کو ملا دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں سکندر کے زمانے کی یونانی تحریرات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، کم از کم یہ واقعہ تاریخی ہے کہ آٹھویں صدی مسیحی تک وہاں ایک معبد موجود تھا اور لوگوں نے اس کا نام کشتی کا معبد رکھ دیا تھا۔ (ص) ایک ایسے طوفان و سیلاب کے بعد ملک کی جو حالت ہوگئی ہوگی اس کی ہولناکی محتاج بیان نہیں۔ قدرتی طور پر حضرت نوح اور ان کے ساتھیوں کو خیال گزرا ہوگا کہ یہ سرزمین زندگی اور زندگی کے تمام سامانوں سے خالی ہوگئی ہے۔ اب اس وحشت کدہ میں ہم کیونکر زندگی بسر کریں گے؟ پس اللہ نے وحی کی کہ سلامتی اور برکتوں کے ساتھ زمین پر قدم رکھو۔ یعنی تمہارے لیے اب خوف کی کوئی بات نہ ہوگی اور سامان زندگی کی تمام برکتیں پھر ظہور میں آجائیں گے۔ چنانچہ آیت (٤٨) میں کہ خاتمہ سرگزشت ہے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ وامم سنمعتھم کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے بعد جو امتیں آئیں گی انہیں اگرچہ زندگی کی ساری کامرانیاں ملیں گی، لیکن پھر پاداش عمل سے تباہی میں پڑیں گی۔