سورة الاعراف - آیت 57

وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ ۚ كَذَٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور وہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت سے پہلے بھیجتا ہے۔ ہوائیں خوش خبری دینے والی یہاں تک کہ جب بھاری بادل اٹھالاتی ہیں تو ہم اسے کسی مردہ شہر کی طرف ہانکتے ہیں، پھر اس سے پانی اتارتے ہیں، پھر اس کے ساتھ ہر قسم کے پھل پیدا کرتے ہیں اسی طرح ہم مردوں کو نکالیں گے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔“ (٥٧)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر (٥٧) میں اس کی مثال بیان کی، جب پانی برسنے کو ہوتا ہے تو پہلے بارانی ہوائیں چلنے لگتی ہیں پھر پانی برستا ہے اور مردہ زمین زندہ ہو کر سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے۔ یہی حال ہدایت وحی اور اس کے انقلاب کا ہے، پہلے اس کی علامتیں نمودار ہوتی ہیں، پھر اس کی برکتوں سے مردہ روحوں میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ چنانچہ ہوائیں چلنا شروع ہوگئی ہیں، اب باران رحمت کی برکتوں کے ظہور کا انتظار کرو۔ لیکن بارش سے صرف وہی زمین فائدہ اٹھا سکتی ہے جس میں اس کی استعداد ہو، شور والی زمین پر کتنی ہی بارش ہو سرسبز نہ ہوگی، اسی طرح قرآن کی ہدایت سے بھی وہی روحیں شاداب ہوں گی جن میں قبولیت حق کی استعداد ہے۔ جنہوں نے استعداد کھو دی ان کے حصہ میں محرومی و نامرادی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔