سورة الانعام - آیت 70

وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور ان لوگوں کو چھوڑ دیں جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنالیا اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکا دیا۔ قرآن کے ساتھ نصیحت کریں کہ کہیں کوئی جان ان اعمال کے بدلے ہلاکت میں ڈال دی جائے۔ اللہ کے سوا نہ اس کا کوئی مددگار ہوگا اور نہ سفارش کرنے والا اور اگر وہ فدیہ دیں تو ان سے نہ لیاجائے گا یہی لوگ ہیں جو ہلاک کیے گئے اس کے بدلے جو انہوں نے کمایا ان کے لیے پینے کو گرم پانی ہے اور دردناک عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ کفر کرتے تھے۔“ (٧٠)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

دین کو کھیل نہ سمجھو ! (ف ٣) غرض یہ ہے کہ دین کا احترام ضروری ہے یہود ونصاری کی طرح نہ ہوجاؤ جن کے دلوں میں مذہب ایک غیر ضروری مشغلہ کی حیثیت سے زیادہ نہیں ۔ (آیت) ” ولا شفیع “۔ سے شفاعت مطلقہ کی تردید مقصود ہے ‘ یعنی غیر مشروط شفاعت ، اہل باطل کا خیال تھا کہ چونکہ ہم انبیاء کی جانب منسوب ہیں ، اور اس انتساب پر نازاں ہیں اس لئے شفاعت قطعی ہوگی ، مکہ کے مشرک یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے بت ، ہمارے اولیاء اللہ پر دباؤ ڈال کر ہمیں بخشوائیں گے قرآن حکیم نے اس نوع کی سفارش کو ممنوع اور ناجائز قرار دیا ، اور بالکل مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔ حل لغات : الذکری : مصدر ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی یاد آنے کے بعد نہ بیٹھو ، ان تبسل : مادہ بسل بمعنی روکنا ، محروم رکھنا ، حمیم : کھولتا ہوا پانی ۔