سورة المآئدہ - آیت 1

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۗ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ! عہد پورے کرو تمہارے لیے چوپائے حلال کیے گئے ہیں سوائے ان کے جو تمہیں بتلائے جائیں شکار کو حلال نہ جانو جب تم حالت احرام میں ہو، یقینا اللہ جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔“ (١)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ایفائے عقد : (ف ١) قرآن حکیم نے دائما ایمان وعمل کے معنی یہ بتائے ہیں کہ ادخلوا فی السلم کآفۃ “۔ یعنی کاملا متعقدات واعمال کے لحاظ سے اسلام قبول کیا جائے ۔ اس آیت میں اسی حقیقت قیمہ کی طرف دعوت دی گئی ہے ۔ عقد کے معنی کسی مضبوط ذمہ داری کے ہیں جو انسانیت اخلاق عامہ اور خدا کی جانب سے مائد ہو مقصد یہ ہے کہ ہر فریضہ ووظیفہ کو ادا کیا جائے ۔ بات ایک ہے ، پیرایہ ہائے بیان مختلف ہیں ، کبھی فرمایا ۔ (آیت) ” اوفوا بعھد اللہ “ کبھی ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولا تنقصوا ال ایمان “۔ اور کبھی کہا جاتا ہے ، (آیت) ” ان تؤدالامنت الی اھلھا “۔ یعنی مختلف طریقوں اور راہوں سے بتانا یہ مقصود ہے کہ دنیا ومذہبی ضرورتوں اور ذمہ داریوں کو محسوس کرو ، یہی احساس ذمہ داری اللہ کا عہد ہے اور یمین اور اسی کا دوسرا نام امانت ہے ، کیونکہ جذبہ واطاعت وانقیاد دراصل اللہ کی گرانقدر ودیعت ہے جو حضرت انسان کو بطور امانت عطا کی گئی ہے ۔ (ف ١) اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ تمام چارپائے باستثناء محرمات حلال وطیب ہیں ، ان کے استعمال میں مضائقہ نہیں فلسفہ ، تحلیل وتحریم کی بحث مفصل گزر چکی ہے ، تفصیل کے لئے دیکھو اوراق گزشتہ ۔ (آیت) ” بھیمۃ الانعام “۔ میں اضافت بیانیہ ہے ، جیسے خاتم فضۃ ۔ امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اس سے مراد وہ جانور ہیں جو جنین ہیں اور اند الذبح مادہ کے پیٹ سے برآمد ہوتے ہیں ۔ (آیت) ” وانتم حرم “۔ دونوں صورتوں کو شامل ہے ، اس صورت کو بھی کہ آپ احرام باندھے ہوئے ہوں اور اس صورت کو بھی کہ آپ حدود حرم میں ہوں ۔ حل لغات : عقود : جمع عقد ، گانٹھ ۔ بھیمۃ : حیوان لایعقل ، ابہام واستبہام اسی سے ماخوذ ہے ۔ انعام : جمع نعم ، بمعنی چارپائے جیسے اونٹ گائے وغیرہ یا وہ جانور جو عام طور پر بطور نعمت کے خیال کئے جاتے ہیں اور پالے جاتے ہیں ۔