سورة غافر - آیت 85

فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ۖ سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ ۖ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

مگر ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کا ایمان ان کے لیے فائدہ مند نہ ہوا، کیونکہ اللہ کا مقرر ضابطہ ہے جو ہمیشہ سے اس کے بندوں پر جاری رہا ہے، اور کافر اس وقت خسارے میں پڑ گئے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

علم نبوت کی وسعت ف 1: گمراہ قوموں میں سب سے بڑا غیب یہ ہوتا ہے کہ ان میں خود پسندی آجاتی ہے ۔ اور وہ اپنے مادی علوم پر فخر وغرور کرنے لگتی ہیں اور ان معارف وحکم پر غور وفکر نہیں کرتیں ۔ جن کا براہ راست دل کی پاکیزگی اور لطافت سے تعلق ہوتا ہے ۔ جب انبیاء علیہم السلام تشریف لاتے ہیں ۔ تو ان کو ہدف استہزاء بنالیتی ہیں ۔ اور اپنے مزخرفات واوہام پر لگی رہتی ہیں ۔ اور ان حقیر معلومات کو علوم نبوت سے زیادہ بیش قیمت جانتی ہیں ۔ جو ان کے پاس ہوتی ہیں ۔ حالانکہ پیغمبر اپنے وقت کا بہت بڑا عارف اور بہت بڑا عالم ہوتا ہے ۔ اس کی نظریں بہت وسیع اور بلند ہوتی ہیں ۔ وہ اپنی حلیم بصیرت سے ان حقائق کو دیکھ لیتا ہے ۔ جہاں تک عام نظریں نہیں پہنچ سکتی ہیں ۔ وہ بیک جنبش فکر طارم اعلیٰ تک رسائی حاصل کرلیتا ہے ۔ اس کا روشن دماغ مستقل کی تاریکیوں میں بھی پیش آئندہ حالات کو ٹٹول لیتا ہے ۔ اور وہ الہام و وحی کے طریقوں سے جانتا ہے ۔ کہ وہ انسانیت کے لئے کون طریق رشدوہدایت زیادہ موزوں اور کون اعمال زیادہ مفید ہیں ۔ مگر کوتاہ نظر لوگ اس زمانے کے محدود نگاہیں رکھنے والے بسبب اپنی فطری پستی کے جب اس کی بلندیوں کا صحیح صحیح اندازہ نہیں کرپاتے ۔ تو جہالت و تعصب کی وجہ سے اس کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اور عملاً اپنے کو عذاب الٰہی کا مستحق گردانتے ہیں ۔ اور پھر جب وہ وقت آجاتا ہے کہ ان بدبختوں کا ان سے انتقام لیا جائے ۔ تو ان کی روح بیدار ہوتی ہے ۔ قلب سے حجابات اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ اور پھر علی الاعلان کہنے لگتے ہیں ۔ کہ اب ہم ایک اللہ کو جانتے ہیں ۔ اور ان تمام مشرکانہ عقیدوں سے توبہ کرتے ہیں ۔ جو ہماری تباہی وہلاکت کا باعث ہوتے ہیں ۔ مگر یہ وقت توبہ وانایت کا نہیں ہوتا ۔ بلکہ مکافات عمل کا ہوتا ہے ۔ اللہ کے غضب اور غصہ کو برداشت کرنے اور اعمال بد کے نتائج کو ممثل اور مشہور طریق پر دیکھنے کا ہوتا ہے اس لئے ان سے اس وقت کہہ دیا جاتا ہے ۔ کہ اب تمہاری درخواست نہیں سنی جائے گی ۔ اور یہ سنت اللہ کا تقاضا ہے ۔ کہ خسران اور گھاٹے کو سہو اور اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتو *۔