سورة الأحزاب - آیت 19

أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ۖ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ ۚ أُولَٰئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جو آپ کا ساتھ دینے میں بخل سے کام لیتے ہیں خطرے کا وقت آجائے تو اس طرح دیدے پھیر پھیر کر آپ کی طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو۔ جب خطرہ ٹل جاتا ہے تو یہی لوگ فائدے کی خاطر قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانیں لیے آپ کے پاس آتے ہیں یہ لوگ ہرگز ایمان والے نہیں اسی لیے اللہ نے ان کے سارے اعمال ضائع کردیے اور اللہ کے لیے ایسا کرنا بہت آسان ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بزدلی کی انتہا ف 1: یہ منافقین کی انتہائی بزدل اور جبن تھا ۔ کہ مخالفین کے عساکر تو آندھی کے طوفات کی تاب نہ لاکر بھاگ چکے تھے مگر یہ اس وہم میں تھے کہ وہ ابھی تک محاصرہ کئے ہوئے ہیں اور اگر یہ عساکر خدانخواستہ پھر پلٹ کر آجائیں ۔ تو ان لوگوں کی طبعاً یہ خواہش ہوگی کہ کہیں جنگل میں جاکر رہیں اور آئے دن جو جنگ وجدال ہوتا رہتا ہے ۔ اس سے محفوظ رہیں ۔ یہ لوگ سخت بزدل ہیں ۔ اور اگرچہ رونا چارا نہیں لڑنا ہی پڑے ۔ تو جی داری سے نہیں لڑتے ۔ بلکہ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے ۔ کہ کسی طح یہ مصیبت ٹل جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل قوت جو سپاہی کو میدان جنگ میں شجاعانہ اقدام پر مجبور کرتی ہے ۔ وہ اس کا عقیدہ ہوتا ہے عقیدہ کی قوت سے وہ لڑتا ہے ۔ اور ان کی کیفیت یہ ہے کہ سرے سے کوئی عقیدہ ہی نہیں رکھتے ۔ نہ کفر کے لئے دلوں میں عصبیت ہے اور نہ ایمان کے لئے محبت ۔ اب لڑیں تو کیسے ۔ جہاد کریں تو کیونکر *۔