سورة المؤمنون - آیت 106

قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

وہ کہیں گے اے ہمارے رب ہماری بدبختی ہم پر غالب آ گئی ہم واقعی گمراہ تھے۔ (١٠٦)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

منکرین کی محرومی وبدبختی : حشمت و جاہ کے عارضی اور فانی ہونے پر خود دنیا میں اس قدر دلائل و براہین موجود ہیں کہ علقمند انسان کے لئے مقام انکار نہیں ، ہو سکتا ہے کہ محض استدلال کی قوت سے صاحب بصیرت ایمان بالآخرۃ کی دولت گرانمایہ سے بہرہ ور ہوجائیں ، مگر یہ اللہ تعالیٰ کی نوازش ہے کہ وہ پیغمبر بھیجتا ہے ، کتابیں نازل کرتا ہے اور معجزات وخوارق کے مطالعہ کا موقع دیتا ہے ۔ تاکہ ظلوم وجہول انسان اپنی زندگی کے مقصد اعلی کا سمجھے ۔ اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ یہ سارے مادی سازو سامان محض فانی ہیں ، مگر منکرین کی غفلت اور محرومی کا یہ عالم ہے کہ کہ باوجود اس اہتمام رشد وہدایت کے دنیا کے فنا ہونے کا انہیں یقین نہیں آتا ، وہ حیوۃ دنیا دائمی سمجھے ہوئے کفر ومعصیت کا ارتکاب کرتے چلے جاتے ہیں ، اور بزعم خود یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمیشہ ایسی حالت سرور میں رہیں گے اور کوئی ان سے ان کے اعمال کے متعلق باز پرس نہیں کرے گا ۔ ان کے پاس اللہ کے رسول آتے ہیں تاکہ انہیں خواب غفلت سے بیدار کریں مگر یہ الٹی ان کی ہنسی اڑاتے ہیں ، آیتیں پڑھ کر سنائی جاتیں رہیں مگر یہ جھٹلاتے تھے معجزات وآیات کا ظہور ہوتا ہے مگر یہ روایتی غرور و نخوت میں مخمور رہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جب یہ لوگ جہنم میں پھینکے جائیں گے ، تو اس وقت اعتراف معاصی وبدبختی کرتے ہوئے گناہوں سے تنفر اور بیزار کا اظہار کریں گے اور کامل الحاح وتضرع سے کہیں گے کہ پروردگار ہمیں جہنم سے مخلصی عنایت کر اور دنیا میں دوبارہ بھیج دے اگر پھر ہم ایسے کام کریں ، تو یقینا ظالم ٹھہریں گے ، اللہ تعالیٰ جواب دیں گے ، اس وقت تو تمہارے لئے ذلت ورسوائی مقدر ہوچکی ہے ، اس لئے اس باب میں مزید کہنے سننے کی گنجائش نہیں ۔ تمہیں معلوم ہے تمہارے سامنے ایک گروہ نے ایمان کی دعوت کو قبول کیا تھا ، اور مجھ سے رحمت ومغفرت کو طلب کیا تھا مگر تم نے ان کا مضحکہ اڑایا ، اور ان کے اس پاک جذبہ کی تحقیر کی تم میری عظمت وجلال کو بھول گئے اور میرے پیغام کو پس پشت ڈال دیا ، اس لئے تمہاری سزا تو بہر آئینہ جہنم ہے ، مگر یہ لوگ جنہوں نے صبر واستقامت سے کام لیا فوز وفلاح کے مستحق ہیں ۔ جہنم میں جو سزا ملے گی وہ بالکل ان کے اعمال ومزعومات باطلہ کے مطابق ہوگی ، چنانچہ دنیا میں یہ لوگ جس طرح دنیا کو دائمی سمجھتے تھے آخرت میں بھی عذاب کے غیر مختتم کلفتوں کے لحاظ سے اسی طرح اس کو حقیر قرار دیں گے ، ارشاد ہوتا ہے کیا تم سمجھ رہے ہو ، کہ ہم نے یونہی بالا کسی غرض وغایت اور وجہ وجیہہ کے اس کائنات کو پیدا کیا ہے ؟ یہ محض کھیل اور تماشہ ہے ؟ نہیں ایسا نہیں ہے مالک عرش عظیم خدائے برتر کی شان اس نوع کے افعال سے بالا اور پاک ہے ۔ حل لغات : سخریا : تمسخر ۔ عبثا : بےکار ، بےفائدہ ۔