سورة الحج - آیت 36

وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ ۖ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ ۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ بنایا ہے تمہارے لیے ان میں خیر ہے پس انہیں کھڑا کرکے ان پر اللہ کا نام لو اور جب ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو ان میں سے خود بھی کھاؤ اور ان کو بھی کھلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور ان کو بھی جو سوالی ہیں۔ ان جانوروں کو ہم نے تمہارے لیے مسخر کردیا ہے تاکہ تم شکر یہ ادا کرو۔“ (٣٦)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) شعائر شعیرہ کی جمع ہے ، جس کے معنی ان چیزوں کے ہیں جہیز نشان ہو ، عبادت اور قربانی بمعنی چونکہ خدا پرستی اور خدا دوستی کی نشانیاں ہیں ، اس لئے شعائر سے تعبیر کیا ہے ۔ بعض کوتاہ فہم لوگوں نے قربانی کو عہد وحشت وجاہلیت کی یادگار قرار دیا ہے ، اور کہا ہے کہ اس کی بنیادیں دیوتاؤں سے خوف دہر اس کے تخیل پر قائم ہیں ، یہ محض غلط ہے ۔ اصل میں مذہب ان رسوم کو باقی رکھنے کے حق میں ہوتا ہے جس سے روحانی اور ملی فوائد حاصل ہو سکتے ہوں ، قربانی قدیم قوموں میں بھی رائج تھی ، اور اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جائے اور غرباء ومساکین کو پیٹ پھر کر کھلایا جائے اب اگر اس قربانی کو مشرکانہ چڑھاوؤں میں تبدیل کردیا گیا تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قربانی کا قدیم اور صحیح تخیل یہی مشرکانہ ہے ، اسلام نے جب دیکھا کہ اہل کتاب میں اور مشرکین میں قربانی کا عملی تخیل موجود ہے اور اس سے بہت زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں ، تو اس نے اس کو باقی رکھا ، اور ان عناصر کو اس میں سے خارج کردیا ، جو مشرکانہ تھے ۔ حل لغات : منسکا : طریق عبادت وقربانی ، المخبتین : عاجزی کے ساتھ خدا کے سامنے جھک جانے والے لوگ ۔ البدن : لدنۃ کی جمع ہے بمعنی قربانی کے اونٹ اور گائے ، اصل میں بدنہ کے معنے موٹے تازے جانور کے ہیں ، اور قربانی کے اونٹ چونکہ نسبتا دوسرے اونٹوں سے زیادہ بہتر ہوتے تھے ، اس لئے انہیں اس کے البدنۃ عن مبعۃ والبقرۃ عن سعۃ ۔