سورة الكهف - آیت 104

الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یہ وہ ہیں جن کی دنیا کی زندگی میں ہی ساری محنت ضائع ہوگئی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔“ (١٠٤)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اعمال کے متعلق اسلام کا فلسفہ !: (ف ١) خود فریبی کی انتہا ہے کہ انسان برائی کا ارتکاب کرے ، اور پھر یہ یقین رکھے کہ اس کا دامن عصمت قطعا گناہ سے آلودہ نہیں ہوا ، اور اپنے افعال میں حق بجانب ہے ، اس قسم کے لوگ غایت درجہ کے بدبخت اور شقی ہیں ، ان سے توبہ وانابت کی امید نہیں رکھی جا سکتی یہ مصیبت کو ثواب اور شر کو خیر سمجھتے ہیں ، ان کا زاویہ نگاہ بدل چکا ہے ، اور یہ صلاحیت کی استعداد کھو چکے ہیں ، اس لئے ان کے لئے اعمال اکارت جائیں گے ، اسلام کافلسفہ یہ ہے کہ وہ اعمال کے مقدار اور افعال کے حجم کو نہیں دیکھتا ، بلکہ اس کی نظر نصب العین پر پڑتی ہے جو شخص بلند نصب العین کو اپنے اعمال وافعال کا محور قرار دیتا ہے ، وہ اسلام کی اصطلاح میں نیک ہے اور جو کوئی نصب العین نہیں رکھتا ، یا خسیس وذلیل مطمح نظر کا مالک ہے ، اس کا ہر فعل ضائع ہوجاتا ہے ۔