سورة الكهف - آیت 82

وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور اس دیوار کی صورت حال یہ ہے کہ یہ دو یتیم بچوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں۔ اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لیے ایک خزانہ دفن ہے ان کا باپ نیک آدمی تھا اس لیے آپ کے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بڑے ہو کر اپنا خزانہ نکال لیں۔ جو کچھ میں نے کیا سب آپ کے پروردگار کی رحمت کی وجہ سے کیا ہے۔ میں نے اپنے اختیار سے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ ہے ان باتوں کی حقیقت جن پر آپ صبر نہیں کرسکے۔“ (٨٢)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٣) دیوار کے متعلق بتایا کہ اس کے خیمے یتیموں کا ایک خزانہ مخفی تھا ، اگر اس کو گرنے سے نہ بچا لیا جاتا ، تو لوگ یتیموں کے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی لوٹ لیتے اور اس طرح وہ ایک بہت ضروری اعانت سے محروم رہتے ، بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ جس طرح حضرت خضر کا الہام موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کے بظاہر مخالف تھا ، اسی طرح ہو سکتا ہے کہ اولیاء اللہ کا امام طریقت ظاہری شرع کے مخالف ہو ، اور حقیقت میں دوست ہو ۔ یہ استدلال غلط ہے ، حضرت خضر (علیہ السلام) کے الہامات بالکل موسوی شریعت کے مطابق تھے ، بات صرف یہ تھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دقت نظر سے کام نہیں لیا ، اور قانون کا مقصد محض یہ سمجھا کہ اس کا تعلق ظواہر امور سے ہے ، خضر نے انہیں بتایا کہ یہ درست نہیں ، شریعت ظاہر وباطن پر محتوی ہوتی ہے ، پیغمبر وہ ہے جس کی نگاہ واقعات اور حقائق کی گہرائیوں تک پہنچے ۔ حل لغات : یرھقہما : ادھاق سے ہے جس کے معنی بلوغ کی حد تک پہنچنے اور دشوار کرنے کے ہیں ۔ زکوۃ : اخلاق کی پاکیزگی ، پاک طینتی ۔ رحما : ہمدردی ۔