سورة الكهف - آیت 60

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور جب موسیٰ نے اپنے جوان ساتھی سے کہا میں نہیں ہٹوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے سنگم پر پہنچ جاؤں یا ایک مدت تک چلتا رہوں گا۔“ (٦٠) ”

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

موسی (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) ! (ف ١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل یہودیوں اور عیسائیوں میں جن مباحث اور قصص کا چرچا تھا ، ان میں ایک بحث یہ بھی تھی ، کہ اصحاب کہف کون تھے ، موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) کا قصہ کیونکر ہے ، اور ذوالقرنین کے حالات کیا ہیں ؟ اس لئے ان کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ان مسائل کے متفق پوچھنا ضروری ہے تھا اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کے لئے ان قصوں کی حقیقت بیان فرمائی ، اور نکات ومعارف کی جانب اشارہ فرمایا جو ان قصے کے ضمن میں پنہاں ہیں اصحاب کہف کے قصہ میں یہ بتلایا کہ خدا پرستوں کو خدا کیونکر کامیاب وکامران فرماتا ہے ، اور کیونکر باطل پرستوں کو تباہ وبرباد کردیتا ہے اس قصہ میں علم کی وسعتوں کی جانب ہماری توجہ کو مبذول کیا ہے ، اور بتایا ہے کہ ایک نبی اور پیغمبر بھی باوجود حصول کمالات کے علم کی پہنائیوں سے پوری طرح بہرہ ور نہیں ۔ ہو سکتا ہے یہ واقعہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ابتدائی عہد نبوت کا ہو ، یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب توراۃ مل چکی اور احکام وفرامین عطا ہوچکے ، تو ضرورت تھی کہ ان احکام کا طریق استعمال انکو بتایا جائے ، حضرت خضر (علیہ السلام) کے ذریعہ اس ترتیب کا انتظام ہوگیا انہوں نے واقعات کو اس رنگ میں پیش کیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قضاء فیصلہ کے اسرار ورموز سے آگاہ ہوگئے ان کو معلوم ہوگیا کہ فیصلہ وقضا کے وقت صرف ظاہری صورت حالات پر بھروسہ کرنا ، بعض اوقات غلط ہوتا ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ فیصلہ سے قبل مقدمہ کی ظاہری وباطنی سطح کا اچھی طرح سے جائزہ لے لیا جائے ۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کے متعلق زیادہ تفصیلات قرآن و حدیث میں مذکور نہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں ، جو فرعون کے معاصر ومقابل ہیں ، اور بنی اسرائیل کی نجات کے داعی ہیں ، بعض لوگوں نے سمجھا ہے کہ موسیٰ بن میتا بن یوسف ہیں ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس (رض) کی روایت سے اس کی تغلیط فرمائی ہے ۔ بہرحال قصہ کا آغاز یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) طلب علم کے لئے سفر کرتے ہیں ، ساتھ ساتھ ایک ملازم ہے ، اس کے پاس زادراہ ہے ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی منزل دور ہے ، وہ وہاں پہنچنا چاہتے ہیں ، جہاں دو دریاؤں کا سنگم ہے ملازم سے اثنائے سفر جبکہ تھک جاتے ہیں ، کہتے ہیں کہ کھانا لاؤ ، وہ کہتا ہے کہ حضرت کھانا غائب ہے ، جب آپ سستانے کے لئے پتھر پر بیٹھے تھے اس وقت مچھلی جھولے میں سے نکل کر پانی میں جا گری اور بھاگ گئی ، اب کیا پکائیں اور کیا کھائیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ یہی وہ مقام ہے جس کی ہمیں تلاش ہے ان کو حق تعالیٰ کی طرف سے بتادیا گیا ہوگا کہ جہاں تمہاری مچھلی خود بخود پانی میں جا گرے گی وہی خضر (علیہ السلام) کا مقام ہے چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خوشی سے اچھل پڑے آپ نے فرمایا یہی تو وہ جگہ ہے جہاں ہم پہنچنا چاہتے ہیں ۔ حل لغات : حقبا : حقب کی جمع ہے ، طویل مدت کو کہتے ہیں یہ لفظ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طلب صادق کو ظاہر کرتا ہے کہ کیونکر وہ حصول علم کے لئے ساری عمر صرف کردینے کے لئے تیار ہیں ۔ غدآء نا : ناشتہ کھانا ، نصبا : تھکن ، سفر کی کوفت تھکان ، رشدا : ہر خیر کی بات :