سورة الإسراء - آیت 60

وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور جب ہم نے آپ سے کہا کہ تحقیق آپ کے رب نے لوگوں کا احاطہ کر رکھا ہے اور ہم نے جو منظر آپ کو دکھایا۔ نہیں بنایا اسے مگر لوگوں کے لیے آزمائش اور وہ درخت بھی جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے۔ اور ہم انھیں ڈراتے ہیں تو یہ ڈرانا ان میں سرکشی کے سوا کچھ اضافہ نہیں کرتا۔“ (٦٠)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مدارک روحانیہ کا ارتقاء : (ف ١) اس آیت بتایا ہے کہ معراج جسمانی کا معجزہ قابل انکار نہ تھا ، مگر تم نے انکار کیا ، حالانکہ اس میں کیا استحالہ ہے ؟ چاہئے تو یہ تھا کہ آپ لوگ اس حیرت انگیز ارتقاء سے عبرت حاصل کرتے ، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدارک روحانیہ کی برتری کے قائل ہوتے اور یہ کہ انکار کرتے ہو ۔ اسی طرح قرآن میں شجر زقوم کا ذکر کیا گیا ، اور تمہیں اعتراض سوجھا ، کہ آگ میں کیونکر اشجار پیدا ہو سکتے ہیں ، حالانکہ تم وہاں کی آگ کی نوعیت سے واقف نہیں ، اور تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کے سب کچھ اختیار میں ہے ۔ جب ان باتوں نے تم میں سوائے انکار کے اور کوئی جذبہ پیدا نہیں کیا تو مزید معجزات سے کیا حاصل ۔