سورة یوسف - آیت 108

قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” فرما دیں یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتاہوں، پوری بصیرت کے ساتھ، میں اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے، اللہ پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں۔“ (١٠٨)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اہل حق کا مسلک : (ف ١) علی بصیرۃ سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر اور اس کے ماننے والوں کا مسلک دلیل اور برہان پر مبنی ہوتا ہے ، وہ جن چیزوں پر اعتقاد رکھتے ہیں ، ان کو خوب سمجھتے اور جانتے ہیں وہ دنیا میں بصیرت ودانش کی تبلیغ کے لئے تشریف لاتے ہیں ، اور دماغوں سے جہل ونادانی اور تقلید آباء کے زنگاروں کو یک قلم دور کردیتے ہیں ، اس لئے ان سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے ، کہ خود ان کے اپنے پاس دلیل وعقل کی روشنی نہ ہوگی ، اسلام تو نام ہی عقل و فکری بالیدگی کا ہے ، اس کے کشت زار ہدایت میں تقلید وجہل کا زقوم کبھی پیدا نہیں ہوتا ، اور نہ مسلمان بےعقلی کی باتوں کو تسلیم کرتا ہے ۔ حل لغات : غاشیۃ : ڈھانپ لینے والا عذاب ۔ بغتۃ : اچانک ، ناگہان ۔ رجالا : مرد ، یعنی انبیاء جب بھی آئے کہ موت بشری میں آئے ، اور کبھی انہوں نے یہ دعوی نہیں کیا ، کہ ان کا تعلق عالم انسانی سے نہیں ہے ۔