سورة یوسف - آیت 24

وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَن رَّأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور البتہ تحقیق وہ اس کے ساتھ ارادہ کرچکی تھی اور وہ بھی اس عورت کے ساتھ ارادہ کرلیتا اگر نہ دیکھی ہوتی اس نے اپنے رب کی برہان۔ اسی طرح ہوا۔ تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو ہٹا دیں۔ یقیناً وہ ہمارے خالص کیے ہوئے بندوں سے تھا۔“ (٢٤)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) ھمت بہ “۔ پر دراصل وقف ہے اور ” ھم بھا “ پر نہیں ، مقصد یہ ہے کہ عزیز مصر کی بیوی لئے تو پورا پورا بدی کا ارادہ کرلیا تھا ، مگر یوسف (علیہ السلام) متوجہ نہیں ہوئے ، کیونکہ وہ برہان نبوت کو بصیرت کی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے موجودہ قرات صحیح نہیں ، اور بغرض صحت ” ھم بہا “ کے معنی تیہج نفسی کے ہیں ، جو طبعی بات ہے ، انبیاء علیہم السلام قوت رجولیت سے تو بہرحال دوسرے لوگوں سے زیادہ بہرہ مند ہوتے ہیں کیونکہ ان کی قوتیں بےلوث رہتی ہیں ، اور ضائع نہیں ہوتیں ، مگر اس قوت کا استعمال کبھی ناجائز طریق پر نہیں ہوتا ۔ آیت کا مقصد یہ ہوگا کہ اس دعوت معصیت پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا طبعی حدود تک متاثر ہونا لازم تھا ، مگر برھان نبوت نے انہیں بچا لیا اور حقیقت میں معلوم ہوتا ہے ، کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے باوجود نفسانی کشاکش کے جذبات پرفتح حاصل کرلی ، یہی اصل عفت ہے کہ نفس بشری مجبور کرے اور نفس نبوی آگاہ روک کر کھڑا ہوجائے ، وہ شخص جس کے دل میں گناہ کی تحریک ہی پیدا نہ ہو ، وہ اگر بچ جائے تو کمال نہیں ، کمال یہ ہے کہ باوجود نہایت خواہش نفس کے انسان عفیف رہے ۔ حل لغات : برھان : دلیل ہر وہبات جو اصل معاملہ کو واضح کر دے ، واستبقا : لپکے ، استبق کے معنے دوڑنے اور لپکنے کے ہیں ۔