سورة الحاقة - آیت 13

فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

پھر جب ایک دفعہ صور میں پھونک ماری جائے گی

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(13۔37) پھر جب صور میں ایک ہی آواز سے پھونکا جائے گا یعنی بحکم الٰہی قیامت برپا ہوگی اور زمین مع پہاڑوں کے اٹھا کر دونوں ایک ہی دفعہ توڑ دئیے جائیں گے یعنی چور چور کر دئیے جائیں گے تو اس روز واقعہ ہونے والی ساعت جس کو شروع میں الحاقہ سے موسوم کیا گیا ہے ظاہر ہوجائے گی اور اس روز آسمان بھی حکم الٰہی سے پھٹ کر پھسپھسا ہوجائے گا۔ فرشتے بحکم اللہ اس روز آسمان کے کناروں پر کھڑے ہوں گے اور ملائکہ کی آٹھ جماعتیں پروردگار عالم کا تخت حکومت اٹھائے ہوں گی (یہ تخت حکومت عرش عظیم ہوگا یا کوئی اور تخت جو میدان قیامت میں رکھا جائیگا۔ چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے یحتمل ان یکون المراد بھذا العرش العرش العظیم اوالعرش الذی یوضع فی الارض یوم القیامۃ لفصل القضائ (سورہ الحاقہ) قیاس یہ چاہتا ہے کہ دوسرے معنے راجج ہیں : اب ایک بات یہ رہ گی کہ آیا حقیقتاً تخت رکھا جائے گا یا یہ تمثیل اور تصویر ہے مفسرین نے دونوں قول اختیار کئے ہیں حقیقت کہنے والے بھی ہیں اور تمثیل اور تصویر کے قائل بھی ہیں چنانچہ تفسیر نیشاپوری میں لکھا ہے۔ لما کان من شان الملک اذا اراد محاسبۃ عما لہ ان یجلس لھم علی سریر ویقف الاعوان حوالیہ صور اللہ تعالیٰ تلک الصورۃ المھیبۃ لا لانہ یقعد علی السریر (تفسیر نیشا پوری بر حاشیہ تفسیر ابن جریر سورۃ الحاقہ) ” یعنی بادشاہ جب اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہتا ہے تو تخت پر بیٹھتا ہے اور ارکان سلطنت بادشاہ کے ارد گرد بیٹھتے ہیں اللہ نے اس ہیبت ناک دربار کی تصویر اپنے حق میں بتائی ہے نہ اس لئے کہ وہ تخت پر بیٹھے گا“ (اللہ اعلم بذاتہ وصفاتہ منہ) الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ واورثنا الارض نتبوء من الجنۃ حیث نشآء فنعم اجر العاملین (پ ٢٤۔ ع ٥) اللہ کی تعریف ہے جس نے ہم سے وعدہ سچا کردیا اور ہم کو اس زمین کا مالک بنادیا ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں رہتے ہیں کام کرنے والوں کا بدلہ اچھا ہے۔ اس آیت میں اہل جنت کا مصدقہ الٰہی کلام منقول ہے کہ ہم زمین پر رہتے ہیں“ یہ تو مسلم ہے کہ عرش عظیم زمین بلکہ سارے آسمانوں کے مجموعے سے بھی بڑا ہے پھر وہ زمین پر کیسے رکھا جائے اور فرشتے اسے کیسے اٹھائیں اس لئے حافظ ابن کثیر نے دوسرا احتمال لکھا کہ یہ عرش عرش عظیم نہیں بلکہ دوسرا ہوگا۔ ) یعنی بڑی ہیبت کا دن ہوگا اللہ کے ملائکہ چاروں طرف منتظر حکم کھڑے ہوں گے اس ہیبت اور رعب دربار کی مثال دیکھنی ہو تو دنیا کے بادشاہوں کے دربار دیکھو جو کسی تقریب پر کیا کرتے ہیں جس میں ایک طرف پولیس بڑی طمطراق سے صف بستہ کھڑی ہوتی ہے تو دوسری طرف فوج اپنی شان اور چمک دمک دکھاتی ہے درمیان میں بادشاہ سلامت جلویٰ افروز ہیں۔ چاروں طرف ہیبت کا نظارہ ہوتا ہے قیامت کے روز اتنا جلال اور ہیبت الٰہی ہوگی کہ کوئی آواز سننے ! میں نہ آئے گی اس روز تم سب لوگ میدان حشر میں پیش کئے جائو گے ایسے کہ تمہاری کوئی مخفی حرکت چھپی نہ رہے گی پھر اس وقت جس کو اعمالنامہ دائیں ہاتھ میں ملے گا اس کی نجات کی علامت ہوگی وہ کہے گا کہ میرے ساتھیو ! آئو میرا اعمالنامہ پڑھو دیکھو اس میں مجھے نجات مل جانے کا ذکر ہے میں پہلے ہی اپنے حق میں اچھا گمان کرتا تھا کہ مجھے میرا حساب یعنی میرے کاموں کا بدلہ پورا پورا ملے گا ضائع نہ ہوگا پس یہ ایسا شخص اپنے پسندیدہ عیش میں رہے گا جس میں اس کی ہر مطلوبہ چیز ملے گی یعنی وہ بڑی عالیشان بہشت میں رہے گا جس کے درخت پھلوں سے اتنے لدے ہوں گے کہ پھل ان کے نیچے کو جھکے ہوئے ہوں گے ان کو اجازت ہوگی کہ ان پھلوں کو خوب خوشگوار کھائو پیئو بعوض اس کے جو تم نے پہلے زمانہ دنیا میں اس جہان کے لئے اچھے اعمال یہاں کے لئے بھیجے تھے وہ اعمال اگرچہ حقیقت میں اتنی نیک جزا کے قابل نہ تھے مگر اللہ کے وعدہ سے اس لائق ہوگئے کہ تم نے ان تھوڑے سے کاموں کا اتنا بڑا بدلہ پا لیا یہ تو ہوا ان لوگوں کا ذکر جو صالح ہوں گے ان کے مقابلے میں جو بد اطوار اور بدافعال ہوں گے یعنی جس کو اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں ملے گا یہ علامت اس کی گرفتاری کی ہوگی وہ اس کو دیکھ کر کہے گا ہائے افسوس مجھے یہ اعمالنامہ نہ ملا ہوتا اور میں اپنا حساب نہ جانتا گو مگو میں رہتا امید خیر تو رہتی اب تو سارا حال کھل گیا۔ ہر گناہ اس میں درج ہے اور مجموعہ گناہوں کا بمقابلہ اعمال صالحہ کے بہت زیادہ ہے اے کاش وہ میری پہلی موت میرا فیصلہ کردیتی ایسا کہ میں مکرر کسی طرح وجود میں نہ آتا آہ میرے مال نے بھی مجھے کچھ فائدہ نہ دیا میرا زور بھی جاتا رہا فرشتوں کو حکم ہوگا۔ اس کو پکڑو اور اس کے گلے میں طوق ڈالو پھر اسی حالت میں اس کو جہنم میں داخل کروستر ہاتھ لمبی زنجیر میں اس کو جکڑ کر دوزخ میں ڈالو اس کی یہی سزا ہے کیونکہ یہ اللہ عظیم پر یقین نہ رکھتا تھا یہ تو اس کا اعتقادی قصور تھا عملی قصور یہ تھا نہ غریب غرباء کو اپنے پاس کھانا کھلاتا نہ کسی دوسرے کو کھلانے کی ترغیب دیتا یعنی خود بخیل تھا اور لوگوں کو بھی بخل سکھاتا تھا۔ اس کے خیال میں کسی غریب مسکین کے ساتھ سلوک کرنا اپنا نقصان کرنا تھا چونکہ یہ خود بخیل غیر مفید شخص تھا پس اس کے لئے بھی آج میدان قیامت میں نہ کوئی حمایتی ہے نہ زخموں کے دھون کے سوا اس کے لئے کھانے کو کھانا ہے جس کو سوائے بدکاروں کے اور کوئی نہیں کھائیگا کیونکہ وہ انہی کے لئے مخصوص ہے۔