سورة آل عمران - آیت 181

لَّقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ ۘ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَقَتْلَهُمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَنَقُولُ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا کہا سن لیا جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں۔ ان کی بات کو ہم لکھ لیں گے اور ان کا بلاوجہ انبیاء کو قتل کرنا بھی اور ہم ان سے کہیں گے کہ جلا دینے والا عذاب چکھو

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(181۔188)۔ بے شک اللہ نے ان لوگوں کی بات چیت سن لی ہے جو خرچ کرنے کے حکم میں اپنی غلط فہمی سے سمجھے کہ اس میں اللہ کا اپنا فائدہ ہوگا جب ہی تو کہتے ہیں کہ اللہ محتاج ہے۔ اور ہم مالدار ہیں کیونکہ وہ ہمیں بار بار خرچ کرنے کا حکم کرتا ہے شان نزول :۔ (لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ) مخالفین اسلام نے زکوٰۃ کا حکم سن کر طعناً اور مسخراً کہا ہم غنی ہیں اور اللہ فقیر ہے جب ہی تو ہم سے زکوٰۃ مانگتا ہے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ یاد رکھیں ہم بھی ان کی یہ بے ہودہ بات اور انبیاء کو ناحق قتل کرنا دونوں لکھ رکھیں گے تاکہ وقت پر ان کو انکار کی گنجائش نہ رہے اور بروز حساب ان کو کہیں گے کہ لواب آگ کا عذاب اپنی بد زبانی کے عوض میں چکھو تم جانتے ہو کہ یہ عذاب تم کو کیوں ہوا یہ ان کاموں کی وجہ سے ہے جو تم نے دنیا میں اس دن کے لئے پہلے بھیجے تھے۔ اور نیز اس وجہ سے کہ اللہ بندوں کے حق میں ظالم نہیں کہ بد معاشوں اور بد زبانوں کو چھوڑ دے اور نیکوں کے برابر ان کو کر دے جو ایک قسم کا ان پر ظلم ہے اس لئے کہ اس کی حکمت اور عدالت کا تقاضا ہے کہ ظالموں اور بے ایمانوں کو ضرور سزادیوے یہ وہی تو ہیں کہ جنہوں نے کہا ہے کہ اللہ نے ہم سے کہہ رکھا ہے کہ ہم کسی رسول کو نہ مانیں جب تک وہ ہمارے پاس سوختنی قر بانی نہ لاوے جسکو آگ جلاوے یعنی ہمارے طریقہ کے مطابق سوختنی قر بانی کرے اور اس کا حکم دے یہ ایک بہانا صرف ہٹ دھرمی کا ہے ورنہ کوئی حکم اللہ نے ایسا نہیں دیاتم اے رسول کہہ دو کہ بے شک مجھ سے پہلے کئی ایک رسول تمہارے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے اور وہ چیز بھی لائے تھے جو تم نے بتلائی ہے پھر تم نے ان کو کیوں قتل کیا تھا اگر تم اس بات میں سچے ہو جب اس کا جواب کچھ نہ دیویں اور نہ کچھ دیں گے پھر اگر تجھ کو جھٹلا دیں تو تو غم نہ کر اس لئے کہ بہت سے رسول تجھ سے پہلے جھٹلائے جا چکے ہیں حالانکہ وہ دلیلیں روشن یعنی معجزے اور کتب سماوی یعنی کتاب روشن صاف ہدائت والی بھی لائے باوجود اس کے انہوں نے محض اپنی خواہش نفسانی کے پیچھے چل کر انبیا کو ناحق قتل کیا اور آخر کار خود بھی بڑی ذلت سے ہلاک ہوئے ایسا ہی تم بھی اے عرب کے نادانو اور اہل کتاب کے پیشوائو اپنی خواہش نفسانی سے اس رسول کی تکذیب کرو گے تو جان رکھو کہ ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے تم بھی اس دنیا میں ہمیشہ نہ رہو گے بلکہ آخر مرو گے اور قیامت کے روز اپنے اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیے جائو گے یہاں کے چند روزہ مزے کسی کام نہیں اصل عیش تو اخرت کا ہے پس جو کوئی اس روز آگ کے عذاب سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد پا گیا باقی رہا دنیا کا چند روزہ عیش جس کے لئے تم اتنی دقتیں اٹھا رہے ہو سو یہ دنیا کی زندگی کے مزے تو صرف دھوکے کی پونجی ہے اے مسلمانو دنیا میں حقیقی عیش کہاں ہے اور کس کو نصیب ہے دنیا میں تو تم اپنے مالوں اور جانوں میں آزمائے جائو گے اور ان لوگوں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی تھی اور نیز عرب کے مشرکوں سے بہت سی رنج کی باتیں سنو گے ان پر گھبرائو نہیں کیونکہ اگر تم ان کی تکلیفوں پر صبر کرو گے اور گھبراہٹ اور بے چینی کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو گے تو تمہیں اس دنیا کے نقصان اور ان تکالیف کے عوض بہت بڑا اجر ملے گا اس لئے کہ یہ بڑی ہمت کا کام ہوگا اہل کتاب کی بد زبانی سے تو بالکل رنجیدہ خاطر نہ ہو یہ تو اس سے بھی بڑھ کر بد اعمالیوں میں پڑے ہوئے ہیں اللہ اور اللہ کے حکموں کو ہیچ سنجھتے ہیں حالانکہ جب اللہ نے ان کتاب والوں سے وعدہ لیا تھا تو بہت تاکیدی حکم دیا تھا کہ ضرور اس کتاب کو لوگوں سے بیان کرنا ہرگز اس کو نہ چھپا نا اس وقت تو سب نے قبول کیا پھر انھوں نے اس کو پس پشت پھینک دیا اور بجائے بیان کرنے کے بغرض طمع دنیاوی اس کو چھپا کر اور اس کے عوض میں تھوڑے سے دنیا کے کھوٹے دام لے رہے ہیں کیونکہ اس کی سزا میں ان کو بہت ہی سختی اٹھانی ہوگی اور پھر اس پر طرہ یہ کہ نادم نہیں ہوتے بلکہ الٹے خوش ہوتے ہیں سو ان جا ہلوں کو جو اپنے کردار (بد) پر خوش ہوتے ہیں اور بن کِئے نیک کاموں کے اپنی تعریف چاہتے ہیں یعنی نیک اعمال تو کرتے نہیں لیکن صلحا کہلانے کا شوق رکھتے ہیں ان کو عذاب سے خلاص نہ سمجھ بلکہ ان کو سخت درد ناک عذاب ہوگا وہاں پر ان کی تیز زبانی ایک نہ چلے گی اور نہ کسی طرف جا سکیں گے شان نزول :۔ (لَاتَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ) آنحضرتﷺ نے یہود سے ایک دفعہ ایک بات دریافت کی انہوں نے واقعی نہ بتلائی باوجود خیانت کے استحقاق شکریہ جتلانے لگے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔