سورة الأحقاف - آیت 29

وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جب ہم کی ایک جماعت کو آپ کی طرف لے آئے۔ تاکہ وہ قرآن غور سے سنیں، جب وہ حاضر ہوئے تو انہوں نے آپس میں کہا خاموش ہوجاؤ۔ جب تلاوت ختم ہوئی تو وہ ڈرانے والے بن کر اپنی قوم کی طرف گئے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(29۔35) پس اے پیغمبر ان کو سمجھانے کے لئے وہ واقعہ سنا اور سمجھا جب ہم نے تیری طرف چند جنوں کو بھیجا تھا کہ وہ قرآن مجید سنیں اور متاثر ہو کر ایمان لاویں پھر جب وہ اس موقع پر آئے جہاں تو اے نبی ! قران پڑھ رہا تھا تو ان کو قرآن سننے سے ایسے لذت آئی کہ وہ ایک دوسرے کو کہنے لگے میاں چپ رہو۔ سنو تو یہ کیا پڑھ رہا ہے آخر ان پر وہی اثر ہوا جو ہونا چاہیے تھا کہ ایک ہی وقت میں سننے سے ایماندار ہوگئے پھر جب قرآن کی تلاوت ختم ہوئی تو وہ جن جو کافرانہ صورت میں آئے تھے اللہ کے عذاب سے ڈرانے والی جماعت بن کر اپنی قوم کی طرف پھرے جا کر ان کو کہا اے بھائیو ! دیکھو ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو اپنے بیان کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب کے بعد اتری ہے اپنے سے پہلی کتاب کی تصدیق کرتی اور بڑی خوبی یہ ہے کہ راستی اور سدہھی راہ کی طرف ہدایت کرتی ہے کتاب کی یہ خوبی بیان کر کے کھلے لفظوں میں اپنی قوم کو سمجھاتے ہیں اے بھائیو ! اللہ کی طرف بلانے والے اس نبی کی بات کو قبول کرو اور دل سے اس پر ایمان لائو اللہ تم کو تمہارے پچھلے گناہ بخش دے گا۔ اور سخت عذاب سے تم کو بچا لے گا اور جو کوئی اللہ کے پکارنے والے کی بات نہ مانے گا۔ وہ کہیں بھاگ کر اللہ کو زمین میں عاجز نہیں کرسکتا ایسا کہ اللہ اس کو پکڑنا چاہے اور نہ پکڑا جائے بلکہ خود ہی عاجز ہے اور اسکے لئے اللہ کے سوا کوئی والی وارث نہیں ایسے لوگ یقینا صریح گمراہی میں ہیں۔ کیا یہ لوگ جانتے نہیں ؟ کہ جس اللہ نے اتنے بڑے بڑے آسمان اور زمین پیدا کئے اور ان کے پیدا کرنے سے اس کو کسی قسم کا تکان نہ ہوا یہودیوں اور عیسائیوں کی الہامی کتاب توریت کی دوسری کتاب ” خروج“ میں مذکور ہے۔ ” چھ دن میں اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا اور تازہ دم ہوا“ (باب ٣١۔ فقرہ ١٧) تازم دم وہ ہوتا ہے جو تھکے اور تھکنا نقصان قدرت پر مبنی ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ میں کسی قسم کا نقصان نہیں اس لئے توریت کی اس عبارت کی اصلاح اور یہودیوں عیسائیوں کے عقیدے کی غلطی کا اظہار کرنے کو قرآن مجید کی اس آیت میں فرمایا (لم یعی بخلقھن) اللہ آسمان و زمین کو پیدا کرکے تھکا نہیں یہ تمہارا خیال غلط ہے (منہ) وہ اس پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے۔ ہاں بے شک وہ ہر کام پر قادر ہے جو چاہے کرسکتا ہے اس کو روکنے والا کوئی نہیں اس کی طاقت لا انتہا ہے اور اس کی قدرت کہیں ختم نہیں۔ کیا تم لوگوں نے مولانا حالی مرحوم کی رباعی نہیں سنی مٹی سے ہوا سے آتش وآب سے یاں کیا کیا نہ ہوئے بشر پہ اسرار عیاں پر تیرے خزانے ہیں ازل سے اب تک گنجینہ غیب میں اسی طرح یہاں اور سنو ! آج تو یہ منکرین قرآنی تعلیم سے سکڑا کڑ کر چلتے اور منہ سے بربڑاتے ہیں مگر جس روز کافروں کو جہنم کی آگ کے سامنے کیا اللہ کی قسم یہ واقعی ہے اور برحق ہم جو دنیا میں اس سے انکار کرتے تھے وہ سراسر ہماری ہٹ دہرمی تھی۔ اس اقرار کے بعد اللہ کا فرشتہ ان کو کہے گا پس تم اپنے کفر کی شامت اعمال سے اس عذاب کو چکھو تم کو اس سے مفر نہیں۔ یہ تو ان منکروں اور حق کے مخالفوں کا حشر ہوگا اور ضرور ہوگا۔ سن اے نبی ! تو تبلیغ احکام میں لگارہ اور مخالفوں کی تکلیف دہی پر صبر کیا کر جیسا بڑی ہمت اور استقلال والے پیغمبروں نے صبر کیا۔ بڑی بڑی تکلیفیں ان پر آئیں مگر وہ ان کو بڑی مردانگی سے برداشت کرتے رہے آخر نتیجہ اچھا ہوا اسی طرح تو بھی صبر کیا کر اور ان مخالفوں کے حق میں جلدی عذاب طلب نہ کر کیونکہ ان پر مصیبت کا زمانہ آنے والا ہے جس روز وہ عذاب دیکھیں گے جس کا ان کو وعدہ دیا جاتا ہے اس روز ان کے ہوش وحواس مفقود ہوں گے وہ سمجھیں گے کہ دنیا میں ہمارا قیام دن کی صرف ایک گھڑی بھر ہوا ہے حیرانی ہے کہ اتنے تھوڑے سے وقت میں ہم نے ایسے کیا جرم کئے کہ ایسی سختی میں ہماری جان پھنس گئی۔ خیر یہ باتیں تو ان کی ہوتی ہو اتی رہیں گی مطلب کی بات یہ ہے کہ یہ قرآن اللہ کے احکام کی تبلیغ ہے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کچھ لوگ اس کے تابع ہوں گے اور کچھ اس سے منکر اور بے فرمان۔ سو اس تبلیغ کے بعد بے فرمان لوگ ہی تباہ اور برباد ہوں گے وہی عذاب میں مبتلا ہوں گے اور جو تابعدار ہیں وہ ہر طرح کی آسودگی میں رہیں گے۔ انشاء اللہ۔