سورة البقرة - آیت 261

مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھاکر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا، خوب جاننے والا ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(261۔266)۔ اس کے تمام کام باحکمت ہیں جو احکام لوگوں کی طرف بھیجتا ہے ان میں بھی صد ہا حکمتیں ہوتی ہیں مگر ان حکمتوں کو پورے طور سے وہ خود ہی جانتا ہے کسی کو غریب کرکے صبر کا حکم دیتا ہے اور کسی کو امیر بنا کر اس کو خرچ کا حکم دیتا ہے۔ اور مثال کے لئے بتلاتا ہے کہ جو لوگ ! اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں اور غریبوں کو حاجت کے موافق دیتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایک دانہ کی طرح ہے جس سے سات بالیں نکلیں۔ ہر بال میں ایک سو دانہ ہے بتلاؤ تو اس کسان کو کتنابڑا فائدہ ہوگا کہ ایک دانہ کے سات سو دانہ ہوگئے ” حضرت عثمان (رض) نے جنگ تبوک کے دنوں میں (جو نہایت تنگی کے زمانہ میں ہوئی تھی) ایک ہزار اونٹ معہ سازو سامان کے دے دئیے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف نے چار ہزار درہم نقد دیئے ان دونوں صاحبوں کے حق میں نازل ہوئی ١٢ ف مگر افسوس کہ ایسے بزرگوں کی نسبت بھی نادانوں کی آنکھ کا تنکا ابھی باقی ہے ع گدر خانہ اگر کس ست یک حرف بس ست (١٢ منہ “ اسی طرح جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کو بھی ایک پیسہ کے ساتھ سو پیسے ملیں گے اور اس سے بھی زائد جس کے لئے اللہ چاہے گا زیادہ کریگا اور اس کے اخلاص کے موافق اس کو بدلہ دے گا اس کے ہاں کسی طرح کی کمی نہیں اللہ بڑا فراخی والا بڑا جواد سب کے اخلاص کو جاننے والا ہے۔ پس سود خواروں کو اطلاع ہو کہ اگر اپنی دولت سے واقعی نفع اٹھانا چاہیں تو اللہ سے معاملہ کریں اس کی صورت یہ ہے کہ غربا پر رحم کریں اور جہاں تک ہوسکے ان کی حاجت برآری میں ساعی ہوں اور نہیں تو کم از کم اتنا تو کریں کہ ان پر ظلم زیادتی سے ہاتھ صاف کریں اور یہ بھی ضروری ہے کہ اگر غربا پر کچھ احسان کریں تو بعد احسان کرنے کے ان پر کسی قسم کا بیجا دباؤ یا طعنہ نہ کریں۔ اس لئے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں اور بعد خرچنے کے نہ احسان جتلاتے ہیں نہ کسی قسم کی تکلیف پہنچاتے ہیں ان ہی لوگوں کے خرچ کا بدلہ اللہ کے پاس ہے جہاں سے ان کو نہ ضائع ہونے کا خوف ہوگا اور نہ کسی قسم کے نقصان سے وہ غمناک ہوں گے سچ پوچھو تو محتاجوں سے اچھی طرح نرمی سے بولنا۔ اور معاف کرو کہہ کر واپس کردینا اور اگر مسائل بدزبانی کرے تو اس کی بدزبانی کو معاف کردینا بہتر ہے اس خیرات دینے سے جس کے دینے کے بعد تکلیف پہنچے اور احسان جتلایا جائے اس لئے کہ اس کا کسی قدر اللہ کے ہاں بدلہ بھی ہے مگر اس صدقہ خیرات کا عوض کچھ نہیں کیونکہ اللہ ایسے صدقات لینے سے بے پرواہ ہے بلکہ ایسے صدقہ دینے والے مستوجب سزا ہیں مگر اللہ بڑا برد بار حوصلہ والاہے جو ان کی عذاب رسانی میں جلدی نہیں کرتا اس لئے ہم عام اعلان دیتے ہیں کہ مسلمانو ! اپنی خیرات احسان جتلانے اور تکلیف پہنچانے سے ضائع مت کیا کرو اس شخص کی طرح جو لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے کہ انہیں سے شاباش سنوں اور اللہ کو جزا سزا کا گویا مالک نہیں مانتا اور قیامت کے دن پر یقین نہیں رکھتا جس کی وجہ سے اس کے تمام صدقات ضائع ہوجاتے ہیں پس اس کے خرچ کی مثال ایک پتھر کی سی ہے جس پر کچھ مٹی ہو اور اس مٹی کی وجہ سے اس پر کچھ روئیدگی بھی ہو۔ پھر اس پر بڑے زور کا مینہ برس کر اس کو بالکل صاف مصفیٰ کر چھوڑے اسی طرح ان کا حال ہے جو لوگوں کو دکھانے کی غرض سے خرچ کرتے ہیں کہ ان کو مال کے خرچ کرنے سے کچھ بھلائی کی امید ہوتی ہے جیسے کہ پتھر کو دیکھ کر کسان کو۔ مگر اس پر انکا ریا جو مثل زور دار مینہ کے آپڑتا ہے بالکل ہی اس کو صاف کرجاتا ہے یہاں تک کہ اپنی کمائی میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ سب کاسب ضائع کر بیٹھتے ہیں مگر اتنا نہیں سمجھتے کہ لوگوں کو خوش کرتے ہم کیا لیں گے کوئی ایک آدھ گھڑی اگر خوش بھی ہوا اور اچھا بھی کہہ گیا تو اور کیا اور جو نہ کہہ گیا تو کیا مخلوق کی اتنی ہی شاباش کے لئے حقیقی مالک کی دائمی جزا سے محروم رہنا عقلمندی نہیں مگر غور نہیں کرتے اور اللہ بھی ایسے بے ایمان کافروں کو ہدایت نہیں کرتا یہ ان کے جی میں ڈالتا ہی نہیں کہ بھلا کس جانب ہے اور جو لوگ اپنے مال محض اللہ کی خوشی حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر اپنے نفسوں کو مضبوط کرنے کو خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی تشبیہ ایک باغ کی سی ہے جو کسی میدان صاف کی نرم زمین میں ہو جہاں زور کی بارش پہنچنے سے وہ باغ دوسروں کی نسبت دوگنا پھل لادے پھر اگر گاہے اس باغ پر گاہے بارش نہ بھی ہو تو بھی بوجہ اس کی نرمائش زمین کے شبنم ہی کافی ہے اسی طرح ان کا حال ہے کہ ان کے خرچ کا بدلہ بھی جس قدر ملنا چاہئے تھا ان کے اخلاص کی وجہ سے اس سے بھی دو گنا ملے گا اور اگر کبھی ایسے مخلص لوگ نامناسب جگہ جان کر نہ بھی دیں تو اس کا بدلہ بھی ان کو ضرور ہی ملے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو دیکھتا ہے جس نیت سے کرتے ہو اس کے موافق بدلہ دے گا۔ حاصل یہ کہ اخلاص مندی سے دیا ہوا ہی کام آتا ہے ریا کاری تو ایسی بری بلا ہے کہ بھرے گھر کو تباہ کرنے والی ہوتی ہے پھر تم ریا کرکے کیا کرلو گے کیا کوئی تم میں سے یہ چاہتا ہے کہ اس کا ایک باغ کھجوروں اور انگوروں کا ہو۔ جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور اس باغ میں اس کے لئے ہرقسم کے میوجات بھی ہوں اور وہ خود عمر رسیدہ اور ضعیف ہو اور ساتھ ہی اس کے بچے بھی چھوٹے چھوٹے قابل پرورش ہوں پس ایسے نازک وقت میں اس باغ کو (جو سب اثاث البیت اس کا تھا اور اس پر اس کے سارے امور موقوف تھے) ایک لوکا جھوکا چل جائے جس میں آگ کی مانند گرمی ہو۔ پس وہ باغ اس گرم ہو اسے جل جائے بتلاؤ کہ کوئی شخص بھی ایسی مصیبت کو اپنے پر لینا چاہتا ہے؟ کہ عین حاجت شدید کے وقت پھر وہ حاجت بھی نہ صرف ذاتی بلکہ اپنے جملہ ضعفا کی بھی ساتھ ہی ہو پس ایسا ہی جان لو کہ اس حاجت سے (جس کا کسی قدر نقشہ تمہیں بتلایا ہے) بھی بڑھ کر ایک سخت حاجت تم پر آنے والی ہے جس میں تم اپنے خرچ کئے ہوئے مالوں کے اس ضعیف العمر سے بھی زیادہ محتاج ہوگے اگر ان میں ریاکاری یا محتاجوں کو دیکھ کر احسان جتلانا یا کسی قسم کی تکلیف پہنچانا مخلوط ہوگا تو سب کے سب اپنے ہاتھ سے دیے ہوئے مال مثل اس باغ کے راکھ ہوئے دیکھو گے اسی طرح اللہ کھول کھول کر احکام بتلاتا ہے تاکہ تم غور وفکر کرو اور مضر سے بچکر مفید کی طرف آؤ