سورة الحج - آیت 2

يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ وَمَا هُم بِسُكَارَىٰ وَلَٰكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اس دن تم دیکھو گے کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو پھینک دے گی ہر حاملہ کا حمل گرجائے گا اور تمہیں لوگ مدہوش نظر آئیں گے حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہوگا۔“ (٢)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(2۔25) جس روز تم اس کو دیکھو گے تو دودھ پلانے والی مائیں اپنی اولاد کو جسے انہوں نے دودھ پلایا ہوگا بھول جائیں گی بس یہی ایک نشان اس کی عظمت شان بتلانے کو کافی ہے اور بھی سننا چاہو تو سنو ! ہر حاملہ مادہ انسان ہو یا حیوان اپنا حمل گرا دے گی مارے دہشت کے تم سب لوگوں کو متوالے دیکھو گے حالانکہ وہ متوالے نہ ہوں گے بلکہ للہ کا عذاب سخت ہوگا جس نے ان کی عقلوں پر ایسا اثر پہونچایا ہوگا کہ مارے اندوہ و غم کے وہ متوالے نظر آئیں گے جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہے ہوں گے اور اللہ سے ان کو خاص قسم کا بندگانہ نیاز ہوگا وہ اس روز فلاح پائیں گے مگر بعض لوگ جو اس روحانی راز سے ناواقف ہیں وہ بجائے تعمیل ارشاد کے محض جہالت سے اللہ کی شان میں کج ادائی سے جھگڑتے ہیں اور خواہ مخواہ کے سوالات کبھی تو اللہ کی ذات کی نسبت کبھی اس کی صفات کی نسبت اٹھاتے ہیں بلکہ یہاں تک بھی کہہ اٹھتے ہیں کہ اگر اللہ نے سب کو پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ ایسے ایسے بے ہودہ خرافات اعتراضات کرنے میں سرکش شیطانوں کی پیروی کرتے ہیں جس طرح وہ ان کو القا کرتے ہیں ان کے کہنے پر چلتے ہیں جس کی نسبت اللہ نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ جو کوئی اس سے دوستی لگائے گا یا اس کی پیروی کرے گا وہ ضرور اس کو گمراہ کرے گا اور دوزخ کے عذاب کی طرف اس کو لے جائے گا عذاب کا ذکر سن کر عموما عرب کے مشرک سر اٹھا اٹھا کر سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مر کر پھر زندہ ہوں سو ایسے لوگوں کے سمجھانے کو تو اے رسول کہہ دے کہ اگر تم دوبارہ جی اٹھنے میں شک کرتے ہو اور تم کو یہ سوالات کھٹکتے ہیں کہ کیونکر پھر زندہ ہوں گے تو تم غور کرو کہ ہم نے تم کو یعنی تمہارے باپ آدم کو مٹی سے بنایا پھر تمہارا سلسلہ نطفہ سے چلایا اس طرح کہ نطفہ کو رحم میں ٹھہراتے ہیں پھر اس کو خون بناتے ہیں پھر خون کو جما ہوا لوتھڑا بناتے ہیں پھر لوتھڑے سے ترقی دے کر خام اور پختہ گوشت کی شکل بناتے ہیں پھر اس کو ترقی دے کر اکثر تو پختہ اور مضبوط گوشت کے ٹکڑے سے اور بعض اوقات خام گوشت سے پیدا کرتے ہیں یہ تم کو اس لئے سناتے ہیں تاکہ تم پر اپنی قدرت کے کرشمے واضح کردیں اور تم کو یقین ہوجائے کہ جس قادر قیوم اللہ نے اتنے اتنے بڑے بڑے کام کئے ہیں اس کی کمال قدرت سے یہ کیا بعید ہے کہ تم کو مرنے کے بعد زندہ کردے بے شک وہ قدرت رکھتا ہے اور سنو ! ہم تم کو مائوں کے رحموں میں ایک مقررہ وقت تک ٹھیرارکھتے ہیں پھر تم کو تمہاری مائوں کے رحموں سے نکالتے ہیں ایسے حال میں کہ تم بالکل ایک بے سمجھ طفل ہوتے ہو کچھ بھی تو نہیں جانتے اس بے خبری اور بے سمجھی کے علاوہ طاقت اور زور کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو کوئی چیونٹی بھی میاں کو کاٹ لے تو اسے بھی ہٹا نہ سکے اس ناتوانی کو دیکھو پھر اس شاہ زوری کو بھی ملاحظہ کرو جو ہم تم کو جوانی کے عالم میں طاقت دیتے ہیں تاکہ تم اپنی کمال جوانی کو پہنچ جائو اور جو کام اس وقت میں تم کو کرنے ہوتے ہیں کرسکو بعض تم میں سے پہلے ہی فوت ہوجاتے ہیں اور بعض انتہا نکمی عمر تک پہنچتے ہیں جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ بعد حصول علم اور واقفی کے ان کو خبر نہیں رہتی اور وہ کچھ بھی نہیں جانتے بلکہ ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہمیں کیا ہوگیا ناطاقتی کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ گویا یہ شعر ان کے حق میں مبالغہ نہیں ہائے اس ضعف نے یہ شکل بنائی میری نبض چلتی ہے تو پستی ہے کلائی میری اس بیان سے تم اس مطلب پر (کہ اللہ مردوں کو زندہ کرسکتا ہے) نہ پہنچ سکو تو اور سنو ! بارش سے پہلے تم زمین کو خشک بنجر پڑی دیکھتے ہو پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تولہلہاتی ہے اور بڑھتی پھولتی ہے اور ہر قسم کی خوش نما انگوریاں نکالتی ہے یہ سب واقعات اس نتجہ پر پہنچانے والے ہیں کہ بے شک اللہ ہی معبود برحق ہے اور یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرے گا اور یہ بھی کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ بھی اس سے ثابت ہوسکتا ہے کہ قیامت آنے والی ہے جس میں کوئی شک نہیں کیونکہ دنیا کی بے ثباتی اور عدم استقلالی اس بات کی کافی شہادت ہے کہ اخیر ایک روز اس کا ایسا زوال ہوگا کہ کوئی چیز بھی نہ رہے گی اور یہ بھی اس سے ثابت ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو جو قبروں میں پڑے ہیں یا پانی میں ڈوبے ہیں یا ہوا میں مل گئے ہیں سب کو اٹھایا جائے گا اتنے دلائل سن کر بھی بعض لوگ محض جہالت سے بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر کسی روشن کتاب کے اللہ کی شان میں محض متکبرانہ طور سے پہلو پھیر کر جھگڑا کرتے ہیں الہیات کے باریک مسائل اور روحانیات کے نکات غامضہ کو اپنی موٹی عقل سے حل کرنا چاہتے ہیں منہ پھاڑ پھاڑ کر اللہ کی پاک کتاب پر معترض ہوتے ہیں تاکہ عوام لوگوں کو اللہ کی راہ سے گمراہ کریں اور شیطانی دام میں پھنسا دیں پس یاد رکھیں ان کے لئے دنیا میں ذلت ہے اور قیامت کے روز ہم ان کو عذاب دوزخ کا مزہ چکھادیں گے اس وقت ان کو کہا جاوے گا کہ یہ روز بد تم کو تمہارے ہاتھوں کی کرتوتوں سے ملا ہے اور جانو کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم روا نہیں رکھتا یہ سن کر بھی بعض لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت گویا ایک کنارہ پر ہو کر کرتے ہیں یعنی خود مطلبی سے پھر اگر ان کو کوئی فائدہ پہنچ جائے چند روزہ نماز پڑھنے اور دعا کرنے سے معقول روزگار مل جائے تو بس پھر تو تسلی پاجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اللہ بھی کوئی زندہ طاقت ہے اور اگر ان کو کوئی تکلیف پہنچے جو مقدر سے پہنچنی تھی تو جھٹ دین سے برگشتہ ہوجاتے ہیں سچ پوچھو تو ان لوگوں نے دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ اٹھایا دنیا میں جس عزت سے ان کو رہنا چاہئے تھا وہ عزت انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کھو دی آخرت کو تو بالکل ہی برباد کردیا۔ اسی واسطے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ یہی صریح اور بدیہی نقصان ہے بھلا اس سے بھی زیادہ کوئی نقصان ہوسکتا ہے کہ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کو آڑے وقت میں پکارتے ہیں جو نہ ان کو ضرر دے سکیں نہ نفع پہنچا سکیں اللہ کے سوا جتنی مخلوق ہے سب کی یہی کیفیت ہے کہ کوئی بھی کسی کو نفع یا نقصان پہنچا نے پر قادر نہیں ہے یہی تو پرلے درجے کی گمراہی ہے اس سے زیادہ گمراہی کیا ہوگی؟ کہ ایسے لوگوں کو پکارتے ہیں جن کے پکارنے کا ضرر نفع سے قریب تر ہے یعنی پکارنے سے ان کے خیال میں جو فائدہ ہوتا ہے وہ تو جب ہوگا تب ہوگا۔ سر دست تو معدوم ہے مگر چونکہ ان کا پکارنا سرے سے ناجائز ہے اس لئے اس موہومی فائدے سے پہلے اس فعل بد کا گناہ تو ان پر لعنت کے طوق کی طرح چمٹ گیا۔ اسی لئے ایسے دوست بھی برے اور ایسا کنبہ بھی برا جو ایسے برے کاموں کی طرف محرک ہوں مگر جو لوگ اللہ کے نیک بندے ہیں یعنی اللہ کے حکموں پر ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کئے ہیں اللہ ان کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں بے شک اللہ تعالیٰ جو ارادہ کرے کردیتا ہے اس کے ارادے کو کوئی مانع نہیں ہوسکتا نہ وہاں دولت مندوں کی دولت کی وجہ عزت ہے نہ غریبوں کی غربت کے سبب سے ذلت ہے وہ تو سب کا مالک ہے سب کا نگران حال ہے جو کوئی اپنے خیال میں یہ گمان کئے بیٹھا ہے کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی مدد نہ کرے گا بلکہ یونہی نسیا منسیا کر دے گا یہ درست نہیں بلکہ اللہ اپنی کسی مخلوق کو نہیں بھولتا تاہم اتنا سمجھانے سے کسی کی تسلی نہ ہو اور وہ اللہ کی نسبت بدگمان ہی ہو تو اسے چاہئے کہ اوپر چھت کی طرف ایک رسی تانے جس کے ساتھ اپنی پھانسی لگائے پھر اس رسی کو کاٹ دے جس کے کٹنے سے وہ زمین پر گر کر مرجائے گا پھر وہ دیکھے کہ اس کی اس تدبیر سے اس کا رنج و غم جو اللہ کی نسبت کر رہا تھا رفع دفع ہوجائے گا؟ مطلب یہ کہ اگر کوئی شخص اللہ کی نسبت ایسا بدگمان ہے کہ اللہ اس کی فریاد رسی نہیں کرتا اس کی حاجات براری سے بے پرواہ ہے تو ایسے شخص کو چاہئے کہ اپنی زندگی کی فکر کرے کیونکہ اس کی ایسی زندگی جو اللہ سے اسے بدگمان کرتی ہو۔ موت اس سے بہتر ہے تاکہ اس کو پوری حقیقت معلوم ہوسکے اور جان لے کہ میں غلطی پر تھا اسی طرح ہم (اللہ) نے اس قرآن میں کھلے کھلے احکام نازل کئے ہیں پس تم ان پر عمل کرو اور دل سے جانو کہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے جو اس کی ہدایت سے فائدہ لینا چاہیں انہیں چاہیے کہ صاف دل سے اس کی فرمانبرداری پر کمر بستہ ہوجائیں ہاں بنی آدم میں جو مذہبی اختلاف ہے ایماندار مسلمان یہودی صابی یعنی بےدین خود رائے عیسائی مجوسی آتش پرست اور بت پرست مشرک بے شک اللہ قیامت کے روز ان میں بین فیصلہ کرے گا ایسا کہ کسی کو اس فے صلو میں چوں و چرا کی گنجائش نہ رہے گی اس اللہ کو کسی کے بتلانے کی حاجت نہیں کیونکہ وہ ہر ایک چیز پر خود حاضر ہے اس کی قدرت کا کرشمہ تمام دنیا میں نظر آرہا ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو مخلوق آسمان میں ہے یعنی فرشتے وغیرہ اور جو مخلوق زمین میں ہے اور سورج اور چاند ستارے پہاڑ درخت چوپائے اور بہت سے انسان بھی اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اسی کی فرمانبرداری کرتے ہیں اسی سے مانگتے ہیں اسی کو اپنا معبود جانتے ہیں جس طرح تم انسانوں کو دیکھتے ہو کہ نیک بندے جس طرح نماز روزہ میں مشغول ہیں اور حیوانات اور جمادات بھی اسی طرح اللہ کی عبادت اور فرمانبرداری میں اپنے اپنے وقت پر مشغول ہیں مثال کیلئے مرغ کو دیکھو کیسا وقت پر بلند آواز سے اللہ کو پکارتا ہے سچ ہے مرغان چمن بہر صباحے تسبیح کنند باصطلاحے ہاں یہ صحیح ہے کہ انسانوں میں بعض ایسے بھی ہیں کہ پورے فرمانبردار ہیں اور بہت سے لوگوں کی بد اعمالی کفر شرک اور دیگر بد اخلاقیوں کی وجہ سے ان پر دائمی عذاب واجب ہوچکا ہے اور قانون الہی کے مطابق ذلت اور خواری ان کے حصے میں آچکی ہے یا آجائیں گی اور جس کو اللہ ہی ذلیل کرے یعنی اس کی بد اعمالی کی سزا میں اس کو داخل جہنم کرے تو اس کو کوئی بھی عزت نہیں دے سکتا کچھ شک نہیں کہ اللہ ایسا توانا اور قادر قیوم ہے کہ جو کچھ چاہتا ہے کردیتا ہے یعنی جو اس کا قانون بین المخلوق ہے اسے کوئی بھی روک نہیں سکتا اصل پوچھو تو یہ لوگ مومن اور کافر دو مخالف گروہ ہیں جن کی مخالفت کسی دنیاوی مطلب کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کی شان میں جھگڑتے ہیں ایک لوگ یعنی موحد تو کہتے ہیں کہ اللہ واحد لاشریک ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ ذات میں نہ صفات میں اور وہ اپنی تمام حاجات اپنے پروردگار ہی سے طلب کرتے ہیں دوسرے ان کے مخالف وہ لوگ ہیں یعنی مشرکانہ خیالات والے جو اللہ کی اس تعلیم توحید سے منکر ہیں وہ لوگ اپنی حاجات کو اللہ کی مخلوق سے طلب کرتے ہیں اپنی ذات اپنی اولاد کو اللہ کے بندوں کی طرف منسوب کرتے ہیں دیوی دیوتا اور پیراں دتا ان کے نام تجویر کرتے ہیں پس جو لوگ کافر ہیں یعنی الٰہی تعلیم توحید سے منکر ہیں وہ جہنم کے عذاب میں مبتلا ہوں گے ان کیلئے اگ کا لباس تیار کرایا جائے گا جس سے ان کا تمام تن من جلے گا ان کے سروں کے اوپر سے سخت گرم پانی کھولتا ہوا ڈالا جائے گا جس کے ساتھ ان کے پیٹوں کے اندر کی انتڑیاں اور بیرونی چمڑے گل جائیں گے اور ان کے مارنے کے لئے لوہے کے گرز ہوں گے جن سے ان کی ہڈیاں چور کی جائیں گی جب کبھی اس جہنم سے مارے غم کے نکلنا چاہیں گے تو اسی میں لوٹا دئیے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ جلانے والا عذاب چکھتے رہو کبھی بھی اس عذاب سے نہ نکلو گے چاہے تم کسی طرح روؤچلائو ان کے مقابل جو لوگ ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی ان باغوں میں ان کے سونے چاندی اور موتیوں کے کنگن پہنائے جائیں گے اصل ساخت تو ان کی حسب مراتب سونے یا چاندی کی ہوگی مگر موتی ان میں جڑے ہوں گے اور لباس ان کا ریشمی ہوگا اس لئے کہ دنیا میں وہ نیک کام کرتے رہے اور پاک کلام بولنے کی ان کو ہدایت کی گئی تھی یعنی اللہ کی توحید وصفات اور نیک اخلاق کے گن گاتے تھے اور اللہ حمید یعنی سب صفات سے موصوف کی راہ دنیا میں ان کو سمجھائی گئی تھی اسی لئے وہ ان انعامات کے مستحق ہوئے یہ تو ان لوگوں کا ذکر ہے جو اللہ کے ہو رہے لیکن جو لوگ خود بھی کافر ہیں اور اور لوگوں کو بھی اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور مسجد الحرام کعبہ شریف سے منع کرتے ہیں جن کو ہم نے لوگوں کیلئے بنایا ہے یعنی کسی ملک کا باشندہ ہو اللہ کی عبادت اس میں کرسکتا ہے جس میں مقیم اور مسافر برابر کے حق دار ہیں پس کچھ شک نہیں کہ ایسی مسجد سے ان کا مسلمانوں کو منع کرنا اور غریب لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنا سراسر ظلم اور بےدینی ہے اور یہ تو ہمارے (اللہ کے) ہاں عام قاعدہ ہے کہ جو کوئی اس مسجد میں بےدینی اور ظلم کا طریق اختیار کرے گا ہم اس کو دکھ کی مار کریں گے افسوس ہے کہ یہ لوگ مسجد احرام کے مالک بن کر اصل مستحقوں کو روکتے ہیں حالانکہ یہ خود روکے جانے کے لائق ہیں کیونکہ بانی مسجد الحرام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے منشاء کے بر خلاف ہیں اس لئے مشرک ہیں اللہ کے ساجھی بناتے ہیں