سورة ھود - آیت 96

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور یقیناً ہم نے موسیٰ کو اپنی آیات اور واضح دلیل دے کر بھیجا۔“ (٩٦)’

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(96۔123) اور سنو ! اسی طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے نشانوں اور ظاہر غلبہ کے ساتھ فرعون اور اس کی جماعت کی طرف بھیجا پھر بھی وہ فرعون ہی کی چال پر چلے حالانکہ فرعون کی چال درست نہ تھی یہی وجہ ہے کہ قیامت کے روز اپنی قوم کے آگے آگے ہو کر ان کو جہنم میں داخل کرے گا بہت ہی برا گھاٹ ہے اور برے اتارے ہوئے ) المورود سے مراد وہ لوگ ہیں جو ادرد کے مفعول بہ ہیں اور حرف عطف محذوف ہے ای بئس الورد والمورود بظاہر یہ لفظ الورد کی صفت ہے طبع اول میں اسی کے موافق معنے کئے ہیں لیکن بعد غور یہ معنٰی اصح معلوم ہوئے۔ منہ ( اور اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگائی گئی اور قیامت کے روز بھی اس کا ایسا اثر ہوگا کہ سب لوگ دیکھیں گے بہت ہی برا عطیہ ہے جو ان کو دیا جاوے گا یہ کفار کی بستیوں کی خبریں ہیں جو ہم تم کو سناتے ہیں ان میں سے بعض کی چھتیں ہنوز استادہ ہیں گویا آبادی ان میں نہیں اور بعض بالکل اجڑ پجڑ کر ایسی ویران ہوئی ہیں کہ کسے اور اندونہ شمار اور بغور دیکھو تو ہم (خدا) نے ان پر ظلم نہ کیا تھا لیکن وہ بے فرمانی سے اپنے اوپر آپ ظلم کر رہے تھے اللہ تعالیٰ کے حکموں سے عدولی اور سرکشی ہی نے ان کو اس نوبت تک پہنچایا تھا پس جب تیرے رب کا حکم ان کو ہلاکت کے لئے آ پہنچا تو ان کے معبودوں نے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوائے وہ پکارا کرتے تھے کچھ بھی کام نہ دیا بلکہ سوائے تباہی کے ان کو کچھ بھی کام نہ دے سکے اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے وہ ظالم قوموں کی بستیوں کو پکڑتا ہے تو بے شک اس کا عذاب نہایت دردناک بڑی شدت کا ہوتا ہے کسی میں اس کی برداشت کی طاقت نہیں بے شک اس سرگذشت میں عبرت کی دلیل ان لوگوں کے لئے ہے جو عذاب آخرت سے ڈرتے ہیں وہ دن ایسا ہوگا کہ سب لوگ اس دن میں جمع کئے جائیں گے اور نیز اس دن سب لوگ ہمارے حضور حاضر ہوں گے ہم اس دن کو ایک وقت مقرر تک کسی مصلحت سے جس کو ہم ہی جانتے ہیں ملتوی رکھتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ جس وقت وہ دن آگیا کوئی نفس بھی بیرح اذن الٰہی کے نہیں بول سکے گا پھر اس دن سب کی قلعی کھل جائے گی کہ بعض ان میں سے بدبخت ہوں گے اور بعض نیک بخت یعنی انسان دو گروہ ہوں گے ایک گروہ نیکوں کا دوسرا بدوں کا بدبخت پس جو بدبخت ہوں گے وہ تو دوزخ کی آگ میں پڑیں گے اور چیختے ہوئے گدھے کی سی آوازیں نکالیں گے جب تک آسمان و زمین بعد تبدیل اس موجودہ شکل کے قائم رہیں گے ہمیشہ تک اسی آگ میں ان کو رہنا ہوگا آئندہ تیرے پروردگار کو اختیار ہے جسے چاہے نکال دے کس نے آرد کہ آنجا دم زند اس شرطیہ کلام سے تعجب نہ کر تیرا پروردگار جو چاہتا ہے فوراً کر گذرتا ہے کوئی چیز اسے مانع نہیں ہوسکتی اور ان کے مقابل جو لوگ نیک بخت ثابت ہوں گے وہ بہشتوں میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان و زمین موجود رہیں گے یعنی ہمیشہ ہمیشہ جس کی کوئی انتہا نہیں آئندہ تیرے پروردگار کو اختیار ہے کیونکہ اس پر کوئی حاکم نہیں جو اس سے کسی امر کا مطالبہ کرے لیکن وہ اپنے اختیارات کو اہل جنت کے خلاف برتے گا نہیں اس لئے کہ وہ اپنے وعدوں کو جو نیک اعمال پر بندوں سے اس نے کئے ہیں کبھی خلاف نہ کرے گا کیونکہ یہ جنت بھی ایک موعودہ عطا بے انقطاع ہے پس جب کہ دونوں فریقوں کے افعال کا نتیجہ تو سن چکا ہے کہ دینداروں اور موحدوں کا انجام اچھا ہے اور بےدینوں اور مشرکوں کا انجام بد ہے تو جن معبودوں کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں ان کی عبادت کے غلط اور جھوٹ ہونے میں بالکل شک نہ کیجیو یہ تو ایسے نادانی سے ان کی عبادت کر رہے ہیں جیسے ان کے باپ دادا ان سے پہلے کرتے تھے ان کو بھلا کیا سمجھ کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو پکارنے کی کیا دلیل ہے یہ تو لکیر کے فقیر ہیں ہم ان سب کو ان کے عملوں کا پورا پورا بدلہ دیں گے ایسے لوگ ابتدا سے ہوتے چلے آئے ہیں ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تو اس میں بھی ایسے لوگوں سے اختلاف ہوا کہ بعض لوگ اس پر ایمان لائے اور بعض انکاری رہے اور اگر تیرے رب کا حکم نہ گذر چکا ہوتا کہ ان کے نیک و بد اعمال کی سزا بعد الموت ہے تو اس دنیا ہی میں ان کے درمیان فیصلہ کیا جاتا کچھ شک نہیں کہ یہ لوگ اس فیصلے کے دن سے سخت انکاری ہیں اور تیرا پروردگار سب کے عملوں کا بدلہ دے گا اسے کسی کے جتلانے کی حاجت نہیں کیونکہ وہ تمہارے کاموں سے بخوبی آگاہ اور خبردار ہے پس جیسا تجھے حکم ہوتا ہے تو اور تیرے تابع دار بالکل سیدھے اور مضبوط رہنا اور کسی طرح سے بایجاد بدعات اس میں کجی نہ کرنا بلکہ دل میں کجی کا خیال تک بھی نہ لانا کیونکہ وہ اللہ جس سے بندوں کا اصل معاملہ ہے تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے اور ایک ضروری بات بھی سنو ! کہ ظالموں کی طرف ذرہ بھی میلان نہ کرنا ان کی محبت کو دل میں جگہ نہ دینا ورنہ دوزخ کی آگ کے عذاب میں مبتلا ہو گے اور اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا اور نہ تمہیں کسی طرح سے کسی کی مدد پنچے گی ظالموں کی طرف جھکنے کے دو پہلو ہیں ایک تو ان سے دلی محبت اور چاہت رکھنی دوسرا طریق یہ ہے کہ خود ان کی چال اختیار کرلینی اس لئے تجھے کہا جاتا ہے کہ نہ تو تو ان سے دلی چاہت کیجیو اور نہ ان کی طرح بد عملی اختیار کیجیو بلکہ دن کی دونوں طرفوں پر صبح ظہر عصر مغرب کو اور کچھ رات گئی بھی عشا کی نماز پڑھا کر کیونکہ نیکیاں بدیوں کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے دور کردیتی ہیں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں کے لئے یہ نصیحت ہے وہ اسی کے مطابق اللہ کی یاد کرتے ہیں اور اگر تکلیف پہنچے تو صبر کیا کر کیونکہ اللہ محسنوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتا یہ تعلیم کوئی نئی نہیں وہی پرانی نبیوں کی تعلیم ہے جو ابتدا سے بذریعہ الہام لوگوں کو سنائی جاتی رہی ہے پھر اس پر یہ لوگ تعجب کیوں کیا کرتے ہیں تعجب تو یہ ہے کہ تم سے پہلے لوگوں میں ایسے دانا کیوں نہ ہوئے کہ فسادیوں کو ملک میں فساد کرنے سے روکتے یعنی لوگوں کو سمجھاتے رہتے کہ اللہ تعالیٰ کی بے فرمانی اور اس کے حکموں کی خلاف ورزی نہ کرو نام کو تو آج کل کی طرح ریفارمران قوم اور مصلحان ملت تو بہت سے تھے مگر اصلی مصلح اور حقیقی ریفارمر جو نبوت کی چال پر چلنے والے ہوں تھوڑے سے تھے جن کو اخیر پر ہم نے ان دنیا دار گمراہوں میں سے نجات دی وہی اصل اصلاح جو منظور الٰہی ہے کرتے تھے اور باقی ظالم لوگ جو محض نفس کے بندے تھے وہ تو صرف انہی لذتوں اور نعمتوں کے پیچھے پڑے رہے جو ان کو ملی تھیں اور وہ انہی بدکاریوں سے اللہ تعالیٰ کے ہاں مجرم ٹھہرے ہوئے تھے اسی لئے تو ان کی ہلاکت ہوئی اور تباہ ہوئے ورنہ تیرا پروردگار ناحق ظلم سے کسی بستی کو جب تک وہ صلاحیت اور دیانت پر ہوں ہلاک اور تباہ نہیں کیا کرتا مگر تو ان کی اس بدگوئی اور ھذیان سے خوف نہ کر اور یاد رکھ کہ تیرا پروردگار اگر چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا اور سب کو مسلمان کردیتا مگر وہ احکام اختیار یہ ہیں کسی پر جبر نہیں کیا کرتا اسی لئے یہ ایسا کیا کرتے ہیں اور ہمیشہ اسی طرح مختلف رہیں گے اور حق سے ضد کرتے ہوئے ان کی زندگی گذرے گی لیکن جن پر تیرے پروردگار نے محض اپنے فضل سے رحم کیا اور اسی لئے ان کو پیدا کیا ہوگا یعنی توفیق خیر عطا کی اور اپنے علم ازلی میں ان سے ایسے کارخیر کا صدور جانا ہوگا وہ ایسے امور کے مرتکب نہ ہوں گے اور تو سن رکھ کہ تیرے رب کا فرمان قطعی صادر ہوچکا ہوا ہے کہ میں جنوں اور انسانوں سے خواہ کسی قوم کے ہوں اگر وہ حق کی مخالفت کریں گے تو ان سب سے جہنم کو بھروں گا یعنی سب کافروں اور ضدیوں کو دوزخ میں ڈالوں گا تو ان کی پرواہ نہ کر نبیوں اور رسولوں کے قصوں اور خبروں میں سے وہ واقعات ہم تجھ کو سناتے ہیں جن کے ذریعہ سے ہم تیرے دل کی ایسی گھبراہٹوں سے مضبوط رکھتے ہیں اور تیرے پاس ان قصوں میں سچی ہدایت اور ایمانداروں کے لئے وعظ اور نصیحت کی بات پہنچ چکی ہے پس تو ایسے موقعوں پر اللہ تعالیٰ کی مدد پر بھروسہ کیا کر اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حکموں اور وعدوں پر ایمان نہیں رکھتے ان سے کہہ کر اگر میری بات تم نہیں مانتے تو اچھا تم اپنے طریق پر عمل کئے جائو ہم بھی کئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے منتظر رہو ہم بھی منتظر ہیں نہ ہمیں اختیار ان کے ان کے لانے کا یہ ہے نہ تم کو اختیار ان کے ٹلانے کا ہم بندے سب کے سب عاجز ہیں اور آسمانوں اور زمینوں کی ظاہر اور پوشیدہ سب باتیں تو اللہ ہی کے قبضے میں ہیں اور جو کسی قدر ظہور پذیر بھی ہوں ان سب امور کا مرجع بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے وہی سب کا مدار اور سب گاڑیوں کا گارڈ اور سب پرزوں کا انجن ہے پس تو اسی کی عبادت کیا کرو اور اسی پر بھروسہ رکھ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے بے خبر نہیں ہر ایک نیک و بدکام کا تم کو بدلہ دے گا