سورة المآئدہ - آیت 35

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف قرب کا ذریعہ تلاش کرو اور اس کے راستے میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔“ (٣٥)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایمان کے تقاضے کے مطابق تقویٰ اختیار کریں اور اللہ تعالیٰ کی نارضی اور اس کے غضب سے بچیں اور وہ اس طرح کہ بندہ مومن مقدور بھر ان امور سے اجتناب کرے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث بنتے ہیں۔ قلب، زبان اور جوارح کے ظاہری اور باطنی گناہوں سے بچے اور ان گناہوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے، تاکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے نجات حاصل کرسکے۔ ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ ”اور ڈھونڈو اس کی طرف وسیلہ“ یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب، اس کے پاس مرتبہ اور اس کی محبت طلب کرو۔ یہ چیز فرائض قلبی مثلاً محبت الٰہی، اس کے خوف، اس پر امید، اس کی طرف انابت اور اس پر توکل، فرائض بدنی مثلاً زکوٰۃ اور حج وغیرہ اور قلب و بدن سے مرکب فرائض مثلاً نماز، ذکر اور تلاوت اور لوگوں سے اپنے اخلاق، مال، علم، جاہ اور بدن کے ذریے سے بھلائی سے پیش آنے اور ان کی خیر خواہی کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ پس یہ تمام اعمال تقرب الٰہی کا ذریعہ ہیں۔ بندہ اعمال کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرنے لگتا ہے تو اللہ اس کے کان بن جاتا ہے جن کے ذریعے سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہے جس کے ذریعے سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہے جس کے ذریعے سے وہ پکڑتا ہے، اس کے پاؤں بن جاتا ہے جس کے ذریعے سے وہ چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ [مطلب یہ ہے کہ اللہ کا محبوب انسان اپنے تمام اعضاء کو اس طرح استعمال کرتا ہے جس طرح اللہ پسند کرتا ہے، یہ مطلب نہیں کہ وہ اللہ کا جزء بن جاتا یا اللہ اس میں حلول کرجاتا ہے جیسا کہ بعض مشرکین میں اس قسم کے عقیدے پائے جاتے ہیں۔ (ص۔ ی) ] پھر اللہ کے قریب کرنے والی عبادات میں سے جہاد فی سبیل اللہ کا خصوصی طور پر بیان کیا اور یہ جہاد نام ہے، کافروں کے ساتھ لڑائی میں اپنی پوری طاقت صرف کرنے کا، مال، جان، رائے، زبان کے ذریعے سے اور اللہ کے دین کی مدد میں اپنی مقدور بھر سعی و کوشش کرنے کا اس لئے کہ عبادت کی یہ قسم تمام طاعات میں سب سے زیادہ جلیل القدر اور قربات میں سب سے افضل ہے، نیز یہ کہ جو اس کی ادائیگی کا اہتمام کرلیتا ہے، وہ دیگر فرائض و عبادات بہ طریق اولیٰ بجا لاتا ہے۔ ﴿لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ ” تاکہ تم فلاح پاؤ۔“ اگر تم نے گناہوں کو ترک کر کے تقویٰ اختیار کیا، نیکیوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کا وسیلہ تلاش کرلیا اور اس کی رضا کی خاطر اس کے راستے میں جہاد کیا، تو امید کی جاسکتی ہے کہ تم فلاح پالو گے۔ فلاح اپنے ہر مطلوب و مرغوب کے حصول میں کامیابی اور مرہوب سے نجات کا نام ہے۔ پس اس کی حقیقت ابدی سعادت اور دائمی نعمت ہے۔