سورة المجادلة - آیت 8

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَىٰ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَيَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ ۚ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا ۖ فَبِئْسَ الْمَصِيرُ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں بری سرگوشیاں کرنے سے منع کیا گیا ہے مگر پھر وہی حرکت کیے جاتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا ہے یہ لوگ چھپ چھپ کر آپس میں گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں کرتے ہیں اور جب آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو اس طریقے سے سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے آپ کو سلام کرنے کا طریقہ نہیں کیا اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہماری باتوں پر اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا؟ ان کے لیے جہنم کافی ہے وہ اس میں داخل ہوں گے، ان کا برا انجام ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

(النَّجْوٰی) دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کا آپس میں سرگوشی کرنا ہے۔ کبھی سرگوشی بھلائی کے معاملے میں ہوتی ہے اور کبھی برائی کے معاملے میں ہوتی ہے، چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ نیکی کے معاملے میں سرگوشی کیا کریں۔ (اَلْبِرُّ) نیکی اور اطاعت کے ہر کام اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے قیام کے لیے ایک جامع نام ہے۔ ( اَلتَّقْوٰی) تمام محارم اور گناہ کے کاموں کو ترک کردینے کے لیے جامع نام ہے ۔پس بندہ مومن اس حکم الہی کے سامنے سرتسلیم خم کردیتا ہے، اس لیے آپ اسے صرف اسی چیز کے بارے میں سرگوشی کرتے ہوئے پائیں گے جو اللہ تعالی کے قریب اور اس کی ناراضی سے دور کرتی ہے۔ (اَلفَاجِرْ) اس شخص کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کو ہیچ اور حقیر سمجھتا ہے، جو گناہ، ظلم اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے لیے سرگوشی کرتا ہے جیسے منافقین جن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہی حال اور وتیرہ تھا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاِذَا جَاءُوْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ ﴾ ”اور جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو اس کلمے سے سلام کرتے ہیں جس کے ساتھ اللہ نے آپکو سلام نہیں کیا۔“ یعنی آپ کو سلام کرنے میں سوء ادبی کا مظاہرہ کرتے ہیں ﴿وَیَقُوْلُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ﴾ یعنی وہ اپنے دل میں ایک قول کو چھپاتے ہیں جس کا ذکر غیب وشہادت کا علم رکھنے والی ہستی نے کیا ہے اور وہ ان کا یہ قول ہے: ﴿ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوْلُ ﴾ ”اللہ ہمیں اس پر جو ہم کہتے ہیں سزا کیوں نہیں دیتا۔“ اور مطلب اس کا یہ ہے کہ وہ اس کو حقیر اور ہیچ سمجھتے ہیں اور ان پر جلدی عذاب نہ آنے سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں باطل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ وہ (مجرموں کو) مہلت دیتا ہے، مہمل نہیں چھوڑتا۔ ﴿حَسْبُہُمْ جَہَنَّمُ یَصْلَوْنَہَا فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾ یعنی ان کے لیے جہنم کافی ہے جس میں ان کے لیے ہر قسم کا عذاب اور بدبختی جمع ہے۔ جہنم ان کو گھیر لے گا اور جہنم میں ان کو عذاب دیا جائے گا۔ ﴿ فَبِئْسَ الْمَصِيرُ ﴾ ”پس وہ بہت بری لوٹنے کی جگہ ہے۔ “یہ لوگ جن کا (ان آیات کریمہ میں )ذکر کیا گیا ہے یا تو منافقین میں سے کچھ ایسے لوگ تھے جو ایمان ظاہر کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس خطاب کے ذریعے سے مخاطب ہوتے تھے جس سے وہ یہ ظاہر کرتے تھے کہ اس خطاب سے ان کا ارادہ بھلائی ہے ،حالانکہ وہ اس بارے میں جھوٹے تھے، یا اہل کتاب میں سے وہ لوگ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے ہوئے کہا کرتے تھے (السَّامُ عَلَیْکَ یَا مُحَمَّدْ!) اور وہ اس سے موت مراد لیتے تھے۔