سورة الأحقاف - آیت 29

وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جب ہم کی ایک جماعت کو آپ کی طرف لے آئے۔ تاکہ وہ قرآن غور سے سنیں، جب وہ حاضر ہوئے تو انہوں نے آپس میں کہا خاموش ہوجاؤ۔ جب تلاوت ختم ہوئی تو وہ ڈرانے والے بن کر اپنی قوم کی طرف گئے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام مخلوق، یعنی انسانوں اور جنوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے، اس لئے تمام مخلوق کو نبوت و رسالت کی تبلیغ ضروری ہے۔ انسانوں کو دعوت دینا اور ان کو برے انجام سے ڈرانا تو آپ کے لئے ممکن ہے۔ رہے جنات تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان کو آپ کی طرف پھیر دیا، اللہ تعالیٰ نے بھیجی ﴿ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ﴾ آپ کی طرف ” جنات کی ایک جماعت تاکہ وہ قرآن سنیں جب وہ آپ کے پاس پہنچے تو کہنے لگے خاموش ہوجاؤ“ یعنی انہوں نے ایک دوسرے کو خاموش رہنے کی تلقین کی۔ ﴿ فَلَمَّا قُضِيَ ﴾ ” جب قرآن پڑھا جا چکا “ اور انہوں نے اس کو یاد کرلیا اور قرآن نے ان پر اثر کیا ﴿ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ ﴾ تو اپنی قوم کی خیر خواہی کرنے اور ان پر حجت قائم کرنے کے لئے ان کے پاس گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرنے اور جنات میں آپ کی دعوت کو پھیلانے کے لئے جنات کو مقرر فرمایا۔