سورة الأحقاف - آیت 17

وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَّكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِن قَبْلِي وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور جس شخص نے اپنے والدین سے کہا تم پر افسوس ہے کہ تم مجھے ڈراتے ہو کہ میں مرنے کے بعد زندہ کیا جاؤں گا؟ حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں اس کے ماں، باپ اللہ سے فریاد کرتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ تجھ پر افسوس۔ ایمان لے آؤبے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے، وہ کہتا ہے یہ سب پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس صالح شخص کا حال بیان کرنے کے بعد جو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہے، اس شخص کا حال بیان کیا ہے جو اپنے والدین کا نافرمان ہے، نیز ذکر فرمایا کہ یہ بدترین حال ہے۔ لہٰذا فرمایا : ﴿ وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ ﴾ ” اور جس نے اپنے والدین سے کہا۔“ یعنی جب انہوں نے اس کو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی اور اسے بداعمالیوں کی سزا سے ڈرایا اور یہ عظیم ترین احسان ہے جو والدین کی طرف سے اپنی اولاد کے لئے صادر ہوتا ہے کہ وہ انہیں ایسے امور کی طرف دعوت دیتے ہیں جن میں ابدی سعادت اور سرمدی فلاح ہے مگر وہ بدترین طریقے سے اپنے والدین کے ساتھ پیش آیا، اس نے کہا : ﴿ أُفٍّ لَّكُمَا ﴾ یعنی ہلاکت ہو تمہارے لئے اور اس دعوت کے لئے جسے تم پیش کرتے ہو، پھر اس نے اپنے انکار اور اس امر کا ذکر کیا جسے وہ محال سمجھتا تھا اور کہا : ﴿ أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ ﴾ کیا تم مجھے یہ بتاتے ہو کہ قیامت کے روز مجھے میری قبر سے نکالا جائے گا ﴿ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِن قَبْلِي ﴾ ” حالانکہ بہت سے لوگ مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں“ جو تکذیب اور کفر کی راہ پر گامزن تھے، جو ہر کافر، جاہل اور معاند حق کے راہ نما اور مقتدیٰ تھے۔ ﴿ وَهُمَا ﴾ یعنی اس کے والدین ﴿ يَسْتَغِيثَانِ ﴾ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہوئے کہتے تھے : ﴿ وَيْلَكَ آمِنْ ﴾ ” تیرا برا ہو ! ایمان لے آ“ یعنی وہ اس کی ہدایت کے لئے انتہائی جدو جہد اور پوری کوشش کر رہے تھے حتی کہ، اس کے ایمان کی سخت حرص کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح مدد مانگ رہے تھے جیسے ڈوبتا ہوا شخص مدد کے لئے پکارتا ہے۔ وہ اس طرح اللہ تعالیٰ سے سوال کر رہے تھے جیسے کوئی اچھو لگا ہوا شخص سوال کرتا ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو ملامت کرتے تھے، اس کے لئے سخت درمند تھے اور اس کے سامنے حق بیان کرتے ہوئے کہہ رہے تھے ﴿ إِنَّ وَعْدَ اللّٰـهِ حَقٌّ ﴾ ” بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔“ پھر اس پر دلائل قائم کر رہے تھے، مگر ان کا بیٹا تھا کہ اس میں سرکشی، نفرت اور حق کے بارے میں تکبر اور جرح و قدح میں اضافہ ہی ہو رہا تھا ﴿ فَيَقُولُ مَا هَـٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴾ یعنی وہ جواب میں کہتا تھا یہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ گزشتہ کتابوں میں سے نقل کردہ کہانیاں ہیں، یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر ان کو وحی کیا ہے، حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُمی ہیں جو لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ آپ نے کسی سے تعلیم حاصل کی ہے، آپ تعلیم حاصل کرتے بھی کہاں سے؟ اور مخلوق اس جیسا قرآن کہاں سے لاتی، خواہ سب لوگ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوتے؟