سورة الجاثية - آیت 2

تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اس کتاب کو نازل کرنے والا ” اللہ“ ہے جو زبردست اور حکیم ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ ایک ایسی خبر دیتا ہے جو قرآن کی تعظیم اور اس کے اہتمام کو متضمن ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ کتاب ﴿تَنزِيلُ﴾ ” نازل کی گئی ہے۔“ ﴿مِنَ اللّٰـهِ﴾ ” اللہ کی طرف سے۔“ جو معبود ہے کیونکہ وہ صفات کمال سے متصف ہے صرف وہی ہے جو نعمتیں عطا کرتا ہے جو غلبہ کامل اور حکمت تامہ کا مالک ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیات افقیہ و نفسیہ کا ذکر کر کے اس کی تائید فرمائی۔ یعنی آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا ذکر فرمایا، نیز زمین کے اندر جو چوپائے پھیلائے، آسمان اور زمین میں جو منفعتیں ودیعت کیں، آسمان سے جو پانی نازل کیا جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ زمین اور اپنے بندوں کو زندگی بخشتا ہے، تائید کے لئے ان کا ذکر فرمایا۔ یہ سب اس قرآن عظیم کی صداقت اور ان حکمتوں اور احکام کی صحت کی کھلی نشانیاں اور ان پر واضح دلائل ہیں، نیز یہ اس پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کمال کا مالک ہے، نیز یہ قیامت اور حشر و نشر پر دلالت کرتی ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی آیات سے انتفاع اور عدم انتفاع کی نسبت سے لوگوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے : پہلی قسم کے لوگ وہ ہیں جو ان آیات پر غور و فکر کرتے ہیں اور ان سے استدلال کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر کامل ایمان رکھتے ہیں جس نے ان کو درجہ یقین پر پہنچا دیا ہے۔ اس ایمان نے ان کی عقلوں کو پاک کردیا اور یوں ان کے معارف، ان کی خرد اور ان کے ایمان میں اضافہ ہوا۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات سنتے ہیں جن سے ان پر حجت قائم ہوجاتی ہے، پھر وہ تکبر اور استکبار کرتے ہیں اور ان آیات سے منہ پھیر لیتے ہیں، گویا کہ انہوں نے ان آیات کو سنا ہی نہیں کیونکہ ان آیات نے ان کے قلب کا تزکیہ کیا ہے نہ ان کو پاک کیا ہے بلکہ ان آیات کے بارے میں ان کے تکبر کے باعث ان کی سرکشی میں اضافہ ہوا ہے۔