سورة آل عمران - آیت 125

بَلَىٰ ۚ إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کیوں نہیں اگر تم صبر کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو۔ وہ تمہارے پاس فوراً پہنچ جائیں گے یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہاری مدد پانچ ہزار نشان والے فرشتوں کے ساتھ ہوگی

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿بَلَىٰ ۚ إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَـٰذَا ﴾ ” بلکہ اگر تم صبر اور پرہیز گاری کرو، اور وہ اپنے اس جوش سے تمہارے مقابلے میں آئیں۔“ (من فورھم ھذا) کا مطلب ہے (من مقصدھم ھذا) ” اپنے کسی ارادے اور عزم کے ساتھ“ اس سے غزوہ بدر مراد ہے۔ ﴿يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ ﴾ ” تمہارا رب تمہاری امداد پانچ ہزار فرشتوں سے کرے گا، جو نشان دار ہوں گے“ یعنی ان پر بہادروں کا خصوصی نشان ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں کی مدد کی تین شرطیں بیان فرمائی ہیں : صبر، تقویٰ اور مشرکین کا فوری جوش و جذبہ کے ساتھ آنا۔ یہ وعدہ مذکورہ بالا فرشتوں کے بطور امداد فوج کے نازل ہونے کے بارے میں ہے۔ لیکن فتح اور دشمنوں کے منصوبوں کی ناکامی کے لیے اللہ نے پہلی دو شرطیں مقرر فرمائی ہیں۔ جیسے کہ پہلے فرمان الٰہی گزرا ہے۔ ﴿وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ۗ ﴾ (ال عمران :3؍ 120) ” اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کرو گے تو ان کے منصوبے تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکیں گے“