سورة الحج - آیت 71

وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَمَا لَيْسَ لَهُم بِهِ عِلْمٌ ۗ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کررہے ہیں جن کے بارے میں نہ تو اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل کی ہے اور نہ یہ خود ان کے بارے میں کوئی علم رکھتے ہیں ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہے۔“ (٧١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکین کی حالت کا ذکر کرتا ہے جنہوں نے خود ساختہ معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے ہمسر ٹھہرا رکھا ہے کہ ان کی حالت بدترین حالت ہے۔ ان افعال پر ان کے پاس کوئی سند ہے نہ نہ ان کے پاس کوئی علم ہی ہے۔ یہ تو محض مقلد ہیں یہ سب کچھ انہوں نے اپنے گمراہ آباؤ اجداد سے حاصل کیا ہے۔۔۔ اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان جو کوئی کام کرتا ہے اس کے پاس۔۔۔ فی نفس الامر۔۔۔ کوئی علمی دلیل نہیں ہوتی چنانچہ یہاں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس شرک پر کوئی دلیل نازل نہیں کی جو اس کے جواز پر دلالت کرتی ہو بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے ایسی براہین قاطعہ نازل فرمائی ہیں جو اس کے فساد و بطلان پر دلالت کرتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان ظالموں کو، جو حق کے ساتھ عناد رکھتے ہیں، وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ ﴾ ” ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا“ جو ان کو اللہ تعالیٰ کے نازل ہونے والے عذاب سے بچا سکے۔ کیا یہ لوگ جن کو اپنے موقف کے بطلان کا علم نہیں، یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی آیات اور ہدایت آجائے گی وہ اس کی اتباع کریں گے یا وہ اپنے باطل ہی پر راضی ہیں؟