سورة طه - آیت 87

قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلَٰكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَارًا مِّن زِينَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذَٰلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” انہوں نے جواب دیا ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے ساتھ وعدہ خلافی نہیں کی۔ دراصل لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لد گئے تھے اور ہم نے ان کو پھینک دیا۔ (٨٧)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

انہوں نے موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام سے کہا کہ ان سے یہ کام جان بوجھ کر اور اپنے اختیار سے سرزد نہیں ہوا بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ ہم زیورات کے گناہ سے جو ہمارے پاس تھے، بچنا چاہتے تھے۔ اہل تفسیر ذکر کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے مصر سے نکلنے سے پہلے قبطیوں سے زیورات وغیرہ مستعار لئے تھے۔ مصر سے نکلتے وقت وہ زیورات بھی ساتھ لے آئے۔ وہاں سے نکل کر انہوں نے وہ زیورات پھینک دیئے تھے جب موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام چلے گئے تو انہوں نے وہ زیورات اکٹھے کر لئے تاکہ موسیٰ علیہ السلام کی واپسی پر اس بارے میں ان سے رجوع کریں۔ جس روز فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق ہوا اس روز سامری نے رسول کا نقش پا دیکھ لیا تھا، اس کے نفس نے اسے آمادہ کیا اور اس نے نقش پا سے خاک کی ایک مٹھی اٹھا لی اور اس خاک میں یہ تاثیر تھی کہ جب اسے کسی چیز پر ڈالا جاتا تو وہ زندہ ہوجاتی تھی۔۔۔ یہ امتحان اور آزمائش تھی۔ اس نے یہ خاک بچھڑے کے اس بت پر ڈال دی، جو اس نے گھڑا تھا۔ اس سے اس میں حرکت پیدا ہوگئی اور اس سے آواز بھی نکلتی تھی۔