سورة مريم - آیت 38

أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا ۖ لَٰكِنِ الظَّالِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جس دن وہ ہمارے پاس آئیں گے۔ اس دن ان کے کان خوب سن رہے ہوں گے اور ان کی آنکھیں بھی اچھی طرح دیکھ رہی ہوں گی مگر آج ظالم کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ (٣٨)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا ﴾ ” کیا خوب وہ سننے والے اور دیکھنے والے ہوں گے جس دن آئیں گے وہ ہمارے پاس“ اس روز وہ خوب سنیں گے اور خوب دیکھیں گے۔ پس وہ اپنے کفر و شرک پر مبنی اقوال و نظریات کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے : ﴿رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ ﴾ (السجدة: 32 ؍12) ” اے ہمارے رب ! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا۔ پس ہمیں دنیا میں واپس بھیج تاکہ ہم نیک عمل کریں اب ہمیں یقین آگیا۔“ پس قیامت کے روز اس حقیقت کا یقین آجائے گا جس میں وہ مبتلا ہوں گے۔ ﴿لَـٰكِنِ الظَّالِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾ ” لیکن ظالم لوگ آج صریح گمراہی میں ہیں۔“ اس گمراہی کا ان کے پاس کوئی عذر نہ ہوگا کیونکہ ان میں سے کچھ لوگ، بصیرت کے ساتھ حق کو پہچان کر عناد کی بنا پر روگردانی کرتے ہوئے گمراہ ہوئے ہیں اور کچھ لوگ حق و صواب کو پہچاننے کی قدرت رکھنے کے باوجود، راہ حق سے بھٹک گئے اور اپنی گمراہی اور بداعمالیوں پر راضی ہیں اور باطل میں سے حق کو پہچاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ غور کیجئے اللہ تعالیٰ نے ﴿فَاخْتَلَفَ الْأَحْزَابُ مِن بَيْنِهِمْ﴾ کہنے کے بعد کیسے فرمایا : ﴿ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا﴾ اور (فَوَيْلٌ لَّهُمْ) نہیں فرمایا کیونکہ اس صورت میں ضمیر کا مرجع ” الاحزاب“ ہوتا اور ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کرنے والے گروہوں میں سے ایک گروہ حق و صواب پر تھا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہتا تھا : ” وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔“ پس وہ عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے اور ان کی پیروی کی۔ یہ لوگ مومن ہیں اور اس وعید میں داخل نہیں ہیں، اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے صرف کفار کو اس وعید کے ساتھ مختص فرمایا ہے۔